لاہور : معذور قیدی عبدالباسط کی پھانسی پرعمل درآمد عارضی طور پر روک دیا گیا ، انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت پاکستان سے معذور قیدی عبدالباسط کی سزائے موت پر عمل درآمد روکنے کی اپیل کی تھی۔
تینتالیس سالہ عبدالباسط کو 2009 میں گھریلو تنازعے پر ایک شخص آصف ندیم کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور فیصل آباد کی ایک عدالت نے 29 جولائی کو پھانسی دینے کے لیے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے تھے۔
خیال رہے کہ سزائے موت کے قیدی عبدالباسط کو آج کی صبح پھانسی دی جانی تھی۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ عبدالباسط بیمار اور معذور ہیں لہٰذا ان کی سزائے موت پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔
مجرم کے وکلاء کا مؤقف ہے کہ عبدالباسط پر پانچ برس قبل فالج کا حملہ ہوا تھا، جس کے بعد سے ان کے جسم کا نچلا حصہ بالکل مفلوج ہوچکا ہے اور ملکی قانون کے مطابق معذور شخص کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔
وکلاء کے مطابق عبدالباسط نہ تو کروٹ لے سکتے ہیں، نہ ہی چل پھر سکتے ہیں اور آنے جانے کے لیے ویل چیئر استعمال کرتے ہیں، جیل حکام نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ عبدالباسط کو ویل چیئر پر ہی پھانسی گھاٹ تک لے جائیں گے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ پہلے بھی سزائے موت کے ایک قیدی مقبول حسین کا ایسا ہی معاملہ معذوری کی بنیاد پر سامنے آیا تھا مگر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے معذوری کی بنیاد پر پھانسی نہیں روکی۔
خیال رہے کہ پاکستان میں سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد پر سات سال سے غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی، گذشتہ برس دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک سکول پر طالبان کے حملے کے بعد ختم کر دی گئی تھی، پابندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک 240 سے زائد مجرموں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان حکومت سے درخواست کی کہ وہ فوری طور پر پھانسیاں روکتے ہوئے سزائے موت پر پابندی عائد کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ دسمبر 2014 کے بعد سے اب تک کم از کم 240 افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا، جس کے بعد پاکستان دنیا بھر میں سزائے موت دینے والے پہلے تین ملکوں میں آگیا ہے۔