کراچی: کراچی کے رہائشی رضی حیدر جو کہ سروس جنرل ایڈمینسٹریشن اینڈ کوارڈینیشن ڈیپارٹمنٹ حکومت سندہ میں بحیثیت ڈسپیج رائڈر ملازم تھے مگران کا کہنا ہے کہ محکمہ نے مدت ملازمت ختم ہونے سے دو سال قبل ہی انہیں رخصت کر دیا اور مراعات سے متعلق ان کی درخواست پربھی کوئی فیصلہ نہیں سنایا۔
رضی حیدر کا مزید کہنا ہے کہ انکے بڑے بھائی کا چند سال قبل انتقال ہوا۔ بڑا بھائی وراثت میں معزور بچے اور بیمار بیوی چھوڑ گیا، جن کی پرورش کے اخراجات ان کے بس سے باہر ہو چکے ہیں۔ رضی کی ایک بیٹی کی تو شادی ہو گئی ہے تاہم انکی چھوٹی بیٹی مریم کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے اور وہ کراچی کے ایک سرکاری یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔
محنت کش کے بچے پراسرار بیماری کا شکار*
رضی کہتے ہیں بڑی بیٹی جسکی چند سال قبل شادی کروائی تھی اب تک اسکے شادی کے اخراجات کا قرضہ نہیں چکا پایا۔
کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم انکی چھوٹی بیٹی مریم حیدر کا کہنا ہے کہ تعلیمی اخراجات اور سیمسٹر کی فیسں ادا نہ ہونے سے وہ شدید ذہنی دباو کا شکار ہیں۔ مریم کا مزید کہنا ہے کہ پڑھ لکھ کر باعزت روزگاحاصل کر کے اپنے خاندان کا سہارا بنا چاہتی ہوں جو اب اب انکو ممکن نظر نہیں آتا۔
سسکتی آہوں کے ساتھ انہوں نے حکومت وقت سے التجا کی ہے کہ وہ انکے بوڑھے باپ کے ریٹائرمنٹ کے مراعات دلو دیں تاکہ وہ نہ صرف اپنے قرضہ ادا کر سکیں بلکہ اس کرایہ کے مکان سے بھی چھٹکارا پا سکیں جس کا مالک آئے روز کرایہ ادا نہ ہونے پر گھر سے زبردستی نکالنے کی دھمکی دیتا ہے۔
مریم حیدراپنے خاندان کی معاشی بدحالی کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ زندگی نے اب انہیں اس مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں ان کے قریبی رشتہ دار بھی ان لوگوں سے نظریں چراتے ہیں تاکہ وہ ان سے کچھ مانگ ہی نہ لیں۔
ملک میں رضی جیسے سینکڑوں ملازمین اپنے مسائل کے حل کے لئے عدلیہ اورمیڈٰیا کی جانب دیکھنے پرمجبورہوچکے ہیں۔