استنبول : ترکی کے اتحادیوں،نیٹو کے اتحادی ممالک اور دنیا بھر کے رہنماؤں نے ترکی میں ہونے والےبغاوت پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترکی میں ناصرف جمہوریت کی حمایت کی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جمہوریت کی بقا پر ترکی عوام کو سلام پیش کیا .
تفصیلات کے مطابق ترکی میں جمعے کے روز رات گئےترکی کے سرکاری نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی پر فوجی احکامات پر جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی میں مارشل لا اور کرفیو نافذ کردیا گیا ہے،جبکہ ملک اب ایک ‘امن کونسل’ کے تحت چلایا جا رہا ہے جو امنِ عامہ کو متاثر نہیں ہونے دے گی.
صدر اردگان کی اپیل پر عوام فوجی بغاوت کے خلاف بھرپور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں اور سڑکوں پر گشت کرتے باغی ٹولے کے ٹینکوں کے سامنے ڈٹ گئے، ترک عوام نے ٹینکوں اور باغی دستوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا،جمہوریت کی طاقت سے باغی ٹولہ پسپا ہونے پر مجبور ہوا اور عوام نے سرکاری عمارتوں سے باغی فوجیوں کونکال باہر نکال دیا.
ترکی میں ہونے والی بغاوت کی کوشش پر امریکی صدر باراک اوباما نے ترکی کی تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ متحد ہوکر رجب طیب اردگان حکومت کی حمایت کریں.
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما نے نیٹو کے اہم اتحادی ملک ترکی میں فوج کے ایک گروپ کی جانب سے جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش پر ترک عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر قسم کی پر تشدد کاروائیوں سے دور رہیں اور ان میں شامل نہ ہوں.
امریکی صدر نے وزیر خارجہ جان کیری سے فون پر بات کی اور انہیں ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ترکی میں فوجی بغاوت کے دوران وہاں رہنے والے امریکی شہریوں کو کسی قسم کا نقصان نہ ہو.
نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹلون برگ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا کہ انہوں نے ترکی کے وزیر خارجہ سے بات کی اور انہیں اس بات یقین دہانی کرائی اور کہاکہ ترکی میں جمہوریت اور اس کے آئین کا احترام کرتا ہے.
Just spoke to Turkish FM. I call for calm, restraint & full respect for Turkey's democratic institutions and constitution.
— Jens Stoltenberg (@jensstoltenberg) July 15, 2016
اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پرامن رہنے کی اپیل کی ہے اور ترجمان کے مطابق بان کی مون ترکی کی موجودہ صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں.
برطانوی وزیر خارجہ بورس ولسن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں ترکی میں ہونے والے بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے.
Very concerned by events unfolding in #Turkey. Our Embassy is monitoring the situation closely. Brits should follow FCO website for advice
— Boris Johnson (@BorisJohnson) July 15, 2016
یونان کے وزیراعظم نے بھی ترکی میں فوج کے باغی گروپ کی جانب سے بغاوت کے بعد اپنے ترک ہم منصب کو پیغام بھجوایا ہے جس میں جمہوری حکومت کی مکمل حمایت کا اظہار کیا گیا ہے.
The government and people of Greece are following the ongoing situation in #Turkey standing for democracy and constitutional order.
— Alexis Tsipras (@tsipras_eu) July 16, 2016
ایرانی وزیرخارجہ جاوید ظریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں ترکی میں ہونے والے بحران، جمہوریت کے استحکام کے ساتھ عوام کی حفاظت کے حوالے سے تشویش کااظہار کیا ہے.
Deeply concerned about the crisis in Turkey. Stability, democracy & safety of Turkish people are paramount. Unity & prudence are imperative.
— Javad Zarif (@JZarif) July 15, 2016
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور دیگر روسی حکام نے ترکی میں ہونے والے بحران میں روسی شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایات کی ہیں.
جرمنی کی چانسلر انجیلا مارکل نے کہا کہ ترکی کی جمہوریت کو عوام نے بچا کر جمہوری اقدار کو بچا لیا.
بھارتی وزیرخارجہ ششما سوراج نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں ترکی جمہوریت کی حمایت کی ہے.
India calls upon all sides to support democracy, mandate of the ballot and avoid bloodshed.#Turkey
— Sushma Swaraj (@SushmaSwaraj) July 16, 2016
ترکی کے سابق صدر عبداللہ گل نے کہا کہ ترکی کوئی لاطینی ریاست نہیں ہے اور انہوں نےکہا کہ جنہوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی وہ اپنے بیرکوں میں واپس چلے جائیں.
واضح رہے کہ ترکی میں فائرنگ اور بم دھماکوں کے واقعات میں 17 پولیس اہلکاروں سمیت 60 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی بھی ہوئے، بغاوت کی کوشش کرنے والے سات سو چون فوجیوں کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ انتیس کرنل اورپانچ جرنلوں کوبرطرف کردیا گیا ہے.