اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کریں گے، عوام کے دبائو کی وجہ سے ہی سپریم کورٹ نے ایکشن لیا، میرا میچ دو نومبر کو تھا اس لیے اس سے پہلے باہر نکل کر خود کو گرفتار کیوں کراتا؟
پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان کاشف عباسی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے ٹی او آرز کو سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہے،ہم نواز شریف کے ٹی او آرز نہیں سپریم کورٹ کے ٹی او آرز مانیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کیس صرف اتنا ہے کہ پاکستان کا پیسہ غلط طریقے سے ملک سے باہر گیا، اس معاملے میں شریف خاندان کی پوری فیملی کے بیانات میں تضاد ہے،ہم جمہوری احتجاج کرتے ہیں تو یہ لوگ ڈنڈے مارتے ہیں، ادارے انصاف نہ کریں تو لوگوں کے جذبات بھڑکتے ہیں، دس لاکھ لوگ باہر نکل آئیں تو اسلام آباد خود ہی بند ہوجائے گا اگر پانچ لاکھ لوگ بھی نکل کر کوئی مطالبہ کردیں تو ماننا پڑےگا۔
قانون کی حکمرانی رکھیں اور میرٹ لے آئیں ادارے چل پڑیں گے، اداروں پر سفارشی افراد کے بٹھانے سے ادارے تباہ ہوگئے جیسا کہ ایف بی آر اور نیب میں حکومت اور خورشید شاہ نے مل کر اپنے بندے بٹھائے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح انتخابی دھاندلیوں کے معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ تسلیم کیا اسی طرح اس کیس کا فیصلہ بھی تسلیم کریں گے، اس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ نہیں دے گی بلکہ تشکیل کیا جانے والا جوڈیشل کمیشن فیصلہ دے گا اور ہم اسے قبول کریں گے، یہی کمیشن ہم ان سے سات ماہ سے مانگ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف خود ہی فیصلہ کررہے تھےکہ ان کا احتساب کس قانون کے تحت ہو، اب سات ماہ بعد عوام نے سڑکوں پر آکر دبائو ڈالا تو پہلی بار ملک کے وزیراعظم کو کسی کمیشن کے سامنے کھڑا ہوکر جواب دینا ہوگا۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ جو ٹی او آرز اپوزیشن کے ہیں اسی پر میرا بھی احتساب کرلیں یا میری پارٹی میں کسی کا بھی احتساب کرلیں مجھے قبول ہے اس پرکوئی اعتراض نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر شوکت خاتم اسپتال کے فنڈنگ میں کرپشن کا الزام غلط ہے، میرا اثاثہ کیا ہے،ایک لندن کا فلیٹ تھا، شوکت خانم کینسر اسپتال کا ٹرسٹ لندن فلیٹ خریدنے کے چھ سال بعد بنا، 83 میں فلیٹ لیا، 6 سال بعد ٹرسٹ بنا اور سات سال بعد اسپتال کے لیے ایک روپیہ جمع ہوا، میں اپنے اثاثوں کے ایک ایک روپے کا حساب دے سکتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ورکرز صرف بنی گالا میں نہیں اسلام آباد میں بھی تھے، صرف 15 گھنٹے کے نوٹسز پر لوگ پریڈ گرائونڈ جلسے میں پہنچے، لاک ڈائون ہوتا تو میں اس سے زیادہ لوگ جمع کرتا، لوگ تو نواز شریف کو پھانسی دینے کے خواہش مند تھے، مجھے کہا گیا کہ میں بنی گالا سے باہر نہیں نکلا، میں باہر کیوں نکلتا؟ اور خود کو گرفتار کیوں کراتا؟ میرا میچ دو نومبر کو تھا اور دونومبر کو ہی مجھے باہر نکلنا تھا اورسارے کارکنوں کو دو نومبر ہی کو سب کچھ کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سیئول میں عوام سڑکوں پر آگئی کسی پر گولی نہیں چلی، احتجاج عوام کا حق ہے لیکن ہم آمریت کی ذہنیت سے باہر نہیں نکلے، ہم غلامی کی ذہنیت سے آزادی چاہتے ہیں، یہی نواز شریف لانگ مارچ پر نکلے تھے کہ احتجاج ہمارا حق ہے تو آج ہمیں کیوں اور کس قانون کے تحت روکا گیا۔