یہ کہانی ان بے گھر، بے لباس اور انسانی جذبات سے عاری ان انسانوں کی ہے جنہیں جانوروں کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا گیا اور ان کے اس طرز زندگی کو انسانی چڑیا گھر کا نام دیا گیا ہے۔
آسٹریلین شہری ریلی مارگن اور مکیس مارگن نے پام نامی جزیرے کا دورہ کیا جہاں کبھی ایک انسانی چڑیا گھر واقع تھاجہاں ایبو جیز ( آسٹریلیا کے مقامی باشندے) جانوروں کی طرح زندگیاں گزارنے پر مجبور تھے۔ ریلی مارگن اور مکیس مارگن کا کہنا ہے کہ ہم نے جو کچھ اپنی نگاہ سے دیکھا اسے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے کیمرے کی آنکھ میں قید کرلیا۔
ریلی مارگن اور مکیس مارگن کا کہنا ہے کہ ہم نے انسانی چڑیا گھر کے متعلق سنا ہوا تھاجب ہم نے اس ’انسانی چڑیا گھر ‘ کا دورہ کیا تو سر شرم سے جھک گیا کہ انسانیت کس طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور تھی، ان کا کہنا تھا کہ یہ انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک پہلو ہے۔.
فوٹوگرافرز کے مطابق ان چڑیا گھروں میں 20 ایبو جیز سمیت دنیا کے کئی علاقوں کے مقامی تہذیب کے حامل انسانوں کوجانوروں کی طرح رکھا گیا تھا اور بغیر کسی انسانی سہولیات کے وہ لوگ جانوروں کی سی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
جزیرہ پام جہاں یہ چڑیا گھر واقع تھا اس کے مکین بزرگ والٹر نے آسٹریلین نشریاتی ادارے کو بتایا کہ مجھے معلوم ہوا کہ میرے ایک چچا امریکہ کے ایک سرکس میں جانوروں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور تھے‘ پتہ چلا ہے کہ ان کا انتقال ہوگیا ہے۔
آپ ان تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ ان افراد کے چہروں پر مایوسی اور غم، کے تاثرات ہیں، یہ لوگ اپنوں کو گنوا چکے ہیں ، انسانی جذبات سے عاری ہوچکے تھے اور جانوروں کے ساتھ رہ رہ کر اپنے آپ کو جانور جیسا سمجھنے لگے تھے.
ریلی مارگن اور مکیس مارگن نے اس موضوع پر ایک ڈاکیومنٹری ’انسائیڈ ہیومن زو‘ (انسانی چڑیا گھر میں) بنائی ہے جو جلد ریلیز ہونے والی ہے۔ اس ڈاکیومنٹری میں انسانیت کے تضحیک آمیز مناظر ہیں جن پر انسانیت آج بھی شرمندہ ہے۔