سیہون شریف: سیہون میں حضرت لعل شہباز قلندرؒ کے مزار پر ہونے والے خودکش دھماکے کے شہدا کی باقیات قریبی نالے اور کچرا کنڈی سے ملنے کا انکشاف ہوا ہے،اپنے پیارے کے اعضا دیکھ کر ایک عورت ہوش کھو بیٹھی۔
تفصیلات کے مطابق سیہون دھماکے کے بعد اکٹھے کیے گئے اعضا کو مکمل اور مناسب طور پر محفوظ نہ کیا گیا۔ شہدا کے جسم کی باقیات قریبی نالے اور کچرے سے برآمد ہونے لگیں۔
تعفن پھیلنے پر اہل محلہ اکٹھے ہوئے تو کچرا کنڈی میں اعضا دیکھ کر خوف زدہ ہوگئے۔ کچرا چننے والے بچے تکلیف دہ مناظر دیکھ کر سہم گئے۔
سنگین بے حرمتی پر سیہون، جامشورو اور حیدر آباد کے شہری چیخ اٹھے اور سراپا احتجاج بن گئے۔ ایس پی اور ڈی سی جامشورو منور میسر نے غفلت کے امکان کو تسلیم کرلیا تاہم ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔
اے آر وائی نیوز کے نمائندے کے مطابق سانحہ سہون کی ایک متاثرہ خاتون اپنے عزیز کی باقیات کچرا کنڈی سے ملنے پر ہوش کھو بیٹھی،آہ و بکا کرتی ہوئی خاتون نے کھوکھلے دعووں، جھوٹی تسلیوں اور انتظامی معاملات کا پردہ چاک کردیا، خاتون کو علاقہ مکینوں نے سنبھالا۔
مقامی افراد کے مطابق اس کے عزیز اللہ دتہ کا شناختی کارڈ اور دیگر باقیات وہاں پڑی تھیں جس دیکھ کر خاتون کو یقین ہوا کہ اس کا عزیز اب اس دنیا میں نہیں بعدازاں لاشوں کے اعضا کی بے حرمتی نے اس پر مزید ستم ڈھایا تو وہ اپنے ہوش سنبھال نہ سکی تاہم اس کے اللہ دتہ سے رشتے کا فوری طور پر علم نہ ہوسکا، امکان ہے کہ اللہ دتہ اس کا شوہر تھا۔
مقامی افراد نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ کچرا کنڈی میں پورے پورے انسانی اعضا پڑے ہوئے ہیں، جس میں کمر کی ہڈی، بازو اور دیگراعضا تھے، ہم نے جب شور مچایا تو ٹاؤن کی کچرا کنڈی والا آیا اور انہیں لے گیا۔
اس نے بتایا کہ دربار کا بھی ٹوٹا پھوٹا سامان وہیں پڑا تھا، ٹاؤن انتظامیہ نے ہمیں شور کرتے دیکھ کر دھمکیاں دیں کہ میڈیا پر واویلا نہ کریں۔
ایک اور شہری نے انکشاف کیا کہ ٹاؤن والے لاشیں گٹر میں پھینک دیتے ہیں، تدفین و جنازہ کچھ نہیں۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے شہدا کے اعضا پھینکے جانے کی خبروں کا نوٹس لے لیا۔
وزیر اعلیٰ نے انتظامیہ پر سخت برہم ہوتے ہوئے کمشنر حیدر آباد کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا۔ انہوں نے کہا کہ میرا دل بہت دکھا ہوا ہے، مجھے مزید تکلیف نہ دیں ورنہ آپ لوگ تکلیف میں آجائیں گے۔
یاد رہے کہ سیہون خودکش دھماکے میں 88 افراد جاں بحق جبکہ ساڑھے 3 سو زخمی ہوئے تھے۔ حکام نے دھماکے کے بعد درگاہ کی صفائی کے دوران تمام شواہد کو محفوظ بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔