تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

امریکا میں‌ 6 مسلم ممالک کے شہریوں‌ کا داخلہ بند، نیا حکم جاری

واشنگٹن: ٹرمپ نے مسلمان مہاجرین کی امریکا آمد پر پابندی عائد کرتے ہوئے نیا حکم نامہ جاری کردیا، ایران، شام، یمن، سوڈان، صومالیہ اور لیبیا کے شہریوں کا امریکا میں داخلہ ممنوع ہوگا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آج نئے حکم نامے پر دستخط کردیے جس کے تحت ایران، شام، یمن، سوڈان، صومالیہ اور لیبیا کے مہاجرین کا امریکا میں داخلہ بند ہوگا۔

قبل ازیں ٹرمپ نے حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں عراق کا نام بھی شامل تھا تاہم اس حکم نامے کو ایک فیڈرل جج نے مسترد کردیا تھا بعدازاں ٹرمپ انتظامیہ جج کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تاہم وہ اپیل مسترد ہوگئی۔

اس بار سات کے بجائے چھ مسلم ممالک پر پابندی کی گئی ہے اور عراق کا نام نکال دیا ہے عراق کے گرین کارڈ ہولڈر اور ویلڈ ویزا ہولڈرز کو امریکا آنے کی اجازت ہوگی پہلے کی طرح اس حکم نامے کی مدت بھی آج سے اگلے 90 دنوں کے لیے ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے حکم نامے میں شامی پناہ گزینوں کی امریکا داخلے پر مکمل پابندی ہٹا لی گئی ہے جب کہ گرین کارڈ یا ویزا رکھنے والے ایرانی، شامی، یمنی، سوڈانی، صومالی اور لیبیائی شہری اس پابندی سے اثرانداز نہیں ہوں گے البتہ نئے ویزے کے اجراء پر پابندی رہے گی۔

خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق گو کہ پناہ گزینوں کے داخلے پر پابندی اُٹھا لی گئی ہے تا ہم اس سال کے لیے اس کی تعداد 50 ہزار تک محدود رکھی گئی ہے۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ نیا حکم نامہ گذشتہ حکم نامے کے برعکس مذہبی اقلیتوں کو ترجیح نہیں دیتا اس سے قبل عیسائی پناہ گزینوں کو ترجیح دی گئی تھی جس پر ٹرمپ انتظامیہ کے ناقدین نے اسے غیرقانونی پالیسی کہا تھا۔

Comments

- Advertisement -