دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن پر مختلف شعبوں کی ان خواتین کو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور دنیا بھر میں اپنے ملک کا نام روشن کیا۔
پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ مختلف کھیلوں کی صورتحال کچھ حوصلہ افزا نہیں۔ خصوصاً خواتین کے لیے تو اور بھی مشکلات ہیں کیونکہ ان کی ٹیموں کو یا تو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں، یا پھر فنڈز نہ ہونے کے باعث یہ بہترین مواقعوں سے محروم ہیں۔
لیکن پاکستان کرکٹ ٹیم کی خواتین تمام تر مشکلات اور ناموزوں حالات کے باوجود اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم آئی سی سی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر موجود ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کچھ کھلاڑیوں نے اپنی اس جدوجہد کا احوال بتایا۔ آئیے آپ بھی وہ احوال جانیں۔
نین عابدی
ویمن کرکٹ ٹیم کی سابق نائب کپتان نین عابدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد پاکستانی خاتون کرکٹر ہیں جنہوں نے ون ڈے کرکٹ میں سنچری بنائی ہے۔ وہ اسے اپنی زندگی کا نہایت قابل فخر لمحہ قرار دیتی ہیں۔
نین عابدی کچھ عرصہ قبل ہی رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہوچکی ہیں، اور شادی کے بعد بھی اپنا کیرئیر جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کا سفر آسان نہیں تھا۔ خصوصاً اس وقت جب ویمن کرکٹ کو بالکل نظر انداز کیا جاتا تھا اور کھلاڑیوں کو مالی معاونت بھی حاصل نہیں تھی۔
تاہم اب حالات بہتر ہوگئے ہیں، اب پی سی بی کی جانب سے ان کی مکمل سرپرستی کی جارہی ہے، انہیں مالی معاونت بھی حاصل ہوگئی ہے اور ٹیم کو بین الاقوامی طور پر کھیلنے کا موقع بھی دیا جارہا ہے۔
نین عابدی کے مطابق جب وہ سبز لباس پہن کر دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں تو اس وقت ان کے تاثرات ناقابل بیان ہوتے ہیں۔
ربیعہ شاہ
ویمن کرکٹ ٹیم کی وکٹ کیپر ربیعہ شاہ نے گلی محلوں میں اپنے بھائیوں اور کزنز کے ساتھ کرکٹ کھیل کر اپنی اس صلاحیت کو نکھارا۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس شعبہ میں جانے کے لیے سب سے زیادہ ان کے ماموں نے ان کی حوصلہ افزائی کی، اور انہوں نے ہی ربیعہ کے والدین کو قائل کیا کہ وہ اسے قومی کرکٹ ٹیم میں بھیجیں۔
ماہم طارق
باؤلر ماہم طارق بتاتی ہیں کہ ان کے والد کے علاوہ خاندان کے کسی شخص نے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ ان کے لیے خود کو منوانے کا سفر آسان نہیں تھا۔
جویریہ روؤف
ایک اور بولر جویریہ روؤف اپنے بچپن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہوں نے ہمیشہ لڑکوں کے ساتھ پریکٹس کی اور ان کے ساتھ کھیلنے والی وہ واحد لڑکی ہوا کرتی تھیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ کھیلنے والے بہت کم لڑکے ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔
تمام خواتین کا متفقہ طور پر ماننا ہے کہ جب انہوں نے کرکٹ ٹیم میں جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہیں مشکلات اور مخالفتیں تو سہنی پڑیں، لیکن ایک بار جب انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کامیابیاں حاصل کرنا شروع کردیں، اور خود کو منوا لیا تو اس کے بعد سب نے ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کرلیا۔
ماہم طارق کا کہنا ہے کہ وہ سب بھی عام سے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور آج اگر وہ اس مقام پر موجود ہیں تو اس کے پیچھے صرف ان کی انتھک محنت اور جدوجہد ہے۔ اسی جدوجہد سے وہ اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے ان روشن ستاروں کا تمام لڑکیوں کے لیے پیغام ہے کہ حوصلہ، لگن اور محنت کسی کو اس کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے سے نہیں روک سکتا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔