کراچی: سابق میئرکراچی اورپاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو پاکستانی جمہوریت سے خطرہ ہے‘ فوجی عدالتیں نہیں ہونی چاہیں لیکن وقت کی ضرورت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن میں کسی کے ساتھ سیاسی اتحاد نہیں کریں گے‘ نوجوانوں اور خواتین کے لیے خصوصی پیکجز لائیں گے اور جمہوریت کو بلدیاتی سطح تک پہنچائیں گے۔
مصطفی کمال کراچی کے سابق ناظم رہے ہیں۔ ماضی میں ان کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا، وہ ایم کیو ایم کی جانب سے سینیٹر بھی رہے ہیں، تاہم اختلافات کی بنا پر وہ سینٹر شپ چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے تھے ۔
رواں سال انھوں نے پاکستان آکر 3 مارچ 2016ء میں اپنی نئی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ ان دنوں وہ اپنی جماعت کی تنظیم سازی میں مصروف ہیں اورتین بار اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ ( بذریعہ جلسہ ) بھی کرچکے ہیں
مصطفیٰ کمال کا خصوصی انٹرویو
اے آر وائی نیوز: آپ ایک اچھی زندگی دبئی میں بسر کر رہے تھے، کب محسوس ہواکہ کراچی کو آپ کی ضرورت ہے؟
مصطفی کمال: اس کا جواب اس وقت سے شروع ہوتاہے، میں جب چھوڑ کرگیا تھا، میں اس وقت بھی بہت اچھی پوزیشن میں تھا،تنظیم کی سینٹ میں نمائندگی کر رہاتھا، رابطہ کمیٹی کا ممبرتھا اور خدمت خلق فاونڈیشن سے وابستہ تھا۔ 2018 تک میرے پاس سینیٹر شپ تھی، آگے پیچھے پروٹوکول تھا، مگر میں یہ سب چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
آپ کی بات بالکل درست ہےکہ دبئی میں آئیڈیل لائف تھی، اچھی نوکری، بہترین گھریلو زندگی، تین سال تک میں نے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھا مگر پاکستان کے حالات تو پتہ چلتے تھے، کراچی کا حال تو ٹی وی پر نیوز کے ذریعے سے دیکھتا تھا، میں اور انیس بھائی یہ چیزیں جب دیکھتے تھے کہ بانی ایم کیو ایم کبھی صحافی حضرات کو گالیاں دے رہے ہیں، کبھی ججز کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں، کبھی مسلح افواج کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، کبھی پاکستان کے خلاف بول رہے ہیں، کبھی اپنے کارکنان کو کہتے ہیں کہ جاکر کمانڈو کی تربیت حاصل کرو، ہمیں لگا کہ یہ قوم کو ایسی دلدل میں لیکر جا رہے ہیں کہ جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔
اس ممکنہ خدشے کے پیش نظر ہم نے محسوس کیا کہ اس سے ایم کیو ایم کے بانی کا تو کچھ نہیں بگڑے گا، قوم کا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔اللہ نے میرے دل میں بات ڈالی کہ میں یہ سب ہوتا دیکھ رہا ہوں اور ہوتا دیکھ چکا ہوں، میں ان لوگوں کے ساتھ طویل عرصے وابستہ رہا، میں بہت کچھ جانتا ہوں، اب مجھے بولنا ہوگا، مجھے یہ خیال آیا کہ اس صورت حال کو دیکھ کر بھی خاموش رہنا مناسب نہیں ہے، جو رات قبر میں ہے وہ بہر حال آنی ہے، میرا رب مجھ سے سوال کرے گا کہ تو سب جانتا تھا، بولنے کی صلاحیت بھی رکھتا تھا پھر کیوں خاموش رہا؟ اس خیا ل نے مجھے یکسر تبدیل کردیا۔
اے آر وائی نیوز: ایم کیو ایم چھوڑ کرچلے جانے کی کوئی خاص وجہ؟
مصطفی کمال: دیکھیں میری کوئی ذاتی طور پر بانی ایم کیو ایم سے لڑائی نہیں تھی نہ ہے، بس میں نے محسوس کیا کہ لوگوں کی بھلائی کے لئے کچھ نہیں ہورہا ہے۔ میرے ذہن میں آیا کہ اگر میں اس جماعت کا حصہ رہتا ہوں تو میں بھی ان گناہوں کا برابر کا حصے دار ہوں گا، ایمان کا آخری درجہ ہے کہ اگر برائی کو روک نہیں سکتے تو کنارہ کشی اختیار کرلو، تو میں بیرون ملک چلا گیا تھا۔ مگر شاید اللہ کو ہم سے کوئی اچھا کام لینا ہے، اسی لئے میں اور انیس بھائی تین سال بعد 3 مارچ 2016 کو وطن عزیز واپس آگئے.
اے آر وائی نیوز: اتنا بڑا فیصلہ کرتے ہوئے خوف نہیں آیا کہ واپس جاؤں گا تو خدانخواستہ مارا جاؤں گا؟
مصطفی کمال: جی بالکل یہ انسانی فطرت ہے، مجھے اپنی اور فمیلی کی جان کے حوالے سے کچھ خدشات تو دل میں آئے مگر پھر اگلے ہی لمحے اللہ تعالی نے یہ خیال میرے دل میں ڈالا کہ میں تو ایم کیو ایم میں رہ کر بھی مارا جاسکتا ہوں، اللہ تعالی اگر مجھے رسوا کرنا چاہے تو اگر میں ایم کیو ایم کا حصہ رہا بھی تو بھی رسوا ہوجاؤں گا،اللہ تعالی میرے بچوں کو اگر کوئی تکلیف دینا چاہے تو ایک ڈینگی مچھر کے ذریعے سے میری اولاد کو بیماری میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اگرمیں ایم کیو ایم کا سینیٹر رہتا اور یہ سوچتا کہ جناب میری زندگی تو لگژری طریقے سے ہی گزرنا چاہئےتو بھی کیا اللہ تعالی ایک مچھر کے ذریعے سے مجھے اور میری اولاد کی زندگی ختم نہیں کرسکتا تھا۔
اے آر وائی نیوز: کراچی کے موجودہ منظر نامے کو مدنظر رکھتےہوئے آپ کو کیا لگتا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں لوگ ووٹ کے لئے گھر سے نکلیں گے؟
مصطفی کمال: سوئپ کریں گے! اس سال وہ لوگ بھی ووٹ ڈالیں گے جو کبھی ووٹ کاسٹ نہیں کرتے تھے، ہمیں نہ صرف ان کے مخالف ووٹ کریں گے بلکہ ان کے دوست بھی ووٹ دیں گے۔
اے آر وائی نیوز: آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ آپ اس قدرپراعتماد ہیں؟
مصطفی کمال: دیکھیں ہم سوشل میڈیا والے لوگ نہیں ہیں، ہم عوامی رابطہ مہم بذات خود عوام کے درمیان رہ کر کرنا چاہتے ہیں اور کررہے ہیں، ہم نے ایک سال میں تین بڑے جلسے کیے ہیں، ہم نے سیکڑوں کارنرمیٹنگز کرلی ہیں، ہمارے 12 ہزار کے قریب ورکرز ہیں، پاکستان کے متوسط طبقے کے ایک ایک فرد سے ہمارا رابطہ ہے، یہ ہے میرا اعتماد۔
اے آر وائی نیوز: کیا آنے والا الیکشن کسی جماعت کے ساتھ اتحاد بنا کرلڑیں گے؟
مصطفی کمال: نہیں! الیکشن سے پہلے تو کوئی سیاسی الائنس نہیں بنائیں گے، الیکشن ہم اپنی جماعت کے منشور پر ہی لڑیں گے، مگر اُس کے بعد لوگ جس کو مینڈیٹ دیتے ہیں ، جو بھی صورتحال بنتی ہے یہ فیصلہ اس وقت کیا جائے گا۔
اے آر وائی نیوز: آپ کے منشور کا ‘بنیادی پوائنٹ’ کیا ہے؟
مصطفی کمال: بااختیارمنتخب حکومتوں کا قیام’
اے آر وائی نیوز: کچھ اس کی تفصیل بتانا پسند کریں گے ؟
مصطفی کمال: جب تک بلدیاتی نظام کے قیام میں بہتری نہیں آئے گی، یہی صورت حال رہے گی، ہم نے اس کو فوکس کیا ہے کہ اختیارات کی مناسب عہدوں پر منتقلی ہو، وزیراعلیٰ کا کام نہیں ہے سٹرکیں تعمیر کروانا، یا سیوریج کے مسائل دیکھنا یا کچرا اٹھانا، یہ سارے کام بلدیاتی نظام کے تحت آتے ہیں۔ نہ ہی موٹرویز کا کام وزیراعظم کا ہوتا ہے۔ لہذا بلدیاتی نظام کو مضبوط ہونا چایئے، اس کے علاوہ نوجوانوں کے لئے ہم نے بہت زیادہ پیکجز لانے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ بہتر تعلیمی نظام، روزگار کے مواقع، خواتین کے حوالے سے بھی ہم نے اہم پیکجززکی منصوبہ بندی کی ہے۔
اے آر وائی نیوز: آپ کی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور مہاجر قومی موومنٹ کی سوچ اردو اسپکینگ شہریوں کی فلاح ہے کیا کبھی آپ لوگ ایک پلٹ فارم پرآسکتے ہیں؟
مصطفی کمال: دیکھیں فاروق ستار صاحب کے لئے تو ہم نے واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ وہ توبہ کریں، ہمارے دروازے ان کے لئے کھلیں ہیں، رہی بات آفاق احمد کی تو ان پر میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ہوں، اردو اسپینگ کو صاف ستھری لیڈر شپ کی ضرورت ہے، کراچی کی موجودہ صورتحال کا کوئی اورذمے دار نہیں ہے۔ یہی لوگ ذمے دارہیں، تو پھر آپ مجھے بتائیں یہ لوگ اردو اسپنیکنگ کے خیر خواہ ہیں ؟ رہی بات ایک جگہ متحد ہونے کی تو ہم ان کو اپنے اندر ضم کرنے کے لئے تیار ہیں مگر ہم وہاں نہیں جائیں گے، کیونکہ ایم کیوایم ہے ہی قائد متحدہ کی، یہ تو خود کہہ رہے ہیں کہ وہ ہمارے بانی ہیں ، جو شخص ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کو گالیاں بکتا رہا ہو اوربکتا رہتا ہو اس شخص کو اپنا محسن مانتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز: مگر وہ تو کہتے ہیں کہ ہم اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں۔
مصطفی کمال: زبانی جمع خرچ ہے، حقیقت نہیں ہے، آج بھی ان کے لوگ اسمبلیوں میں موجود ہیں، کس بنیاد پر ہیں۔
اے آر وائی نیوز: مردم شماری کے حوالے سے پاک سر زمین کے کیا تحفظات ہیں؟ کیا مردم شماری کے حوالے سے فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان کے موقف کی تائید کریں گے؟
مصطفی کمال: دیکھیں فاروق ستار جتنا اردو بولنے والوں کی بات کریں گے اتنا اس کمیونٹی کو نقصان پہنچائیں گے، انہیں 30 سالوں بعد اردو بولنے والوں کا خیا ل آرہا ہے، جب حکومتوں کا حصہ تھے تو کیوں نہیں یہ خیال آیا؟ پھر کہتے ہیں کہ اختیارات نہیں تھے، آج ان کا مئیربھی یہ بات کررہا ہے تو بھائی چھوڑو، استعفی دو۔
جب آپ صرف ایک ہی کمیونٹی کی بات کرتے ہیں تو اس کا فائدہ نہیں نقصان کررہے ہوتے ہیں، ہم سب سے مل رہے ہیں ہم کٹی پہاڑی جاتے ہیں تو ہمارے پٹھان بھائی ہمارا استقبال کرتے ہیں۔ لیاری میں بلوچ بھائی ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، اطراف کے گوٹھوں میں جاتا ہوں تو ہمیں محبتیں ملتی ہیں، یہی صورتحال جب رونما ہوتی ہے جب وہ ہمارے یہاں آتے ہیں۔ یہ ہے اردو اسپیکنگ سے محبت، جوبات فاروق ستار صاحب کر رہے ہیں اس سے اردو بولنے والوں کا نقصان ہے۔
ہماری پہلی ترجیح پاکستانیوں کو جوڑنا ہے۔ جہاں تک مردم شماری پر تحفظات کی بات ہے تو صرف یہ بات کرنا چاہوں گا کہ ہر قسم کی لسانیات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اس نکتے کو مدنظر رکھا جائے، جو جہاں جتنی تعداد میں ہے اس کو وہاں گن لیا جائے، اگر کوئی نقل مکانی کر گیا یا ملازمت کی وجہ سے کسی اور شہر میں ہے تو اسے بار بارنہیں گنا جائے، بس وہاں ہی گنا جائے جہاں وہ موجود ہے۔ اتنی سی ڈیمانڈ ہے ہماری!۔
اے آر وائی نیوز: عمومی تاثر ہے کہ پاکستان میں میدان سیاست میں لوگ آتے نہیں ہیں لائے جاتے ہیں ؟ آپ کی کیا رائے ہے؟
مصطفی کمال: اگر آپ میری بات کر رہی ہیں تو میں تو کم از کم نہیں لایا گیا، ہاں لیکن ایسے واقعات ہیں جہاں میں لوگوں کو لایا گیا، بڑی بڑی جماعتوں کے لیڈروں کو لایا گیا، ہم پرالزام لگایا جاتا ہے کہ ہمیں اسٹبلشمنٹ لے کر آئی ہے تو میرا ان سے سوال ہے کہ کیا اسٹبلشمنٹ کی ایما پر ہی میں یہ ساری لگژریزچھوڑٖکرگیا تھا، اس وقت تو اس قسم کی باتیں نہیں ہوئیں، مجھے بلانے کے لئے بے چین تھے، ٹی وی پر آکر بول رہے تھے کہ مصطفی کمال آجاؤ، مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو معاف کردو ، میرے آنے سے 6 ماہ قبل تک تو ان کے قائد مجھے بلا رہے تھے۔
یہ ساری باتیں میں اپنی جانب سے نہیں کر رہا، اس کے ثبوت تو ٹی وی ریکارڈزپرموجود ہیں، اس کے علاوہ میرے پاس ای میلزہیں، ان کی کالزہیں۔ اگر اسٹبلشمنٹ کی جماعت انتی پاور فل ہوتی تو آج پیر پگارا سندھ کے وزیراعٰلی ہوتے، آفاق احمد کراچی کی چابی ہاتھ میں لئے ہوتے اورچوہدری شجاعت پاکستان کے وزیراعظم ہوتے۔ یہ بات میں نہیں کہہ رہا، اس بات کا یہ لوگ بارباراظہار کرچکے ہیں کہ ہم اسٹبلشمنٹ کے لوگ ہیں، اس لئے میں نے ان لوگوں کی مثالیں دی ہیں۔ ضروری ہے عوام کی طاقت، عوام کی طاقت ساتھ نہیں ہے تو کوئی کچھ نہیں کرسکتا ہے۔
اے آر وائی نیوز: سابق صدر پرویز مشرف پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں، پاک سرزمین خوش آمدید کہے گی؟
مصطفی کمال: پارٹی کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا کیوں کہ اس قسم کی کوئی بات ہی نہیں ہوئی ہے، مگر وہ پاکستانی ہیں، ان کا ملک ہے، وہ پاکستان ضرورآئیں۔
ااے آر وائی نیوز: کیا کراچی کا امن صرف رینجرز کی ہی مرہون منت ہے ؟ آپ کراچی کے معروضی حالات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، کون سے سیاسی اقدامات کے ذریعے کراچی میں دیرپا امن ممکن ہے؟
مصطفی کمال: کوئی شک نہیں کہ رینجرز نے کراچی میں قیامِ امن کے لئے قابل تحسین خدمات پیش کی مگر وہی بات کہ رینجرز کوئی حل نہیں ہے، جب تک اختیارات اور وسائل کو بلدیاتی سطح تک منتقل نہیں کیا جائے گا، یہ ہی صورت حال رہے گی۔ پائیداراورحتمی امن کے لئے اختارات کا یوسی لیول تک منتقل ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ضلعی سطح پر پولیس ریفارم کی جائی تاکہ پولیس گھردرگھر، فرد در فرد کو جان سکیں، جرائم میں کمی اسی طرح ممکن ہے۔ جب تک بلدیاتی نظام اور پولیس ریفارم میں بہتری نہیں آئے گی تب تک قیامِ امن مکمل طورپرممکن نہیں ہے۔
اے آر وائی نیوز: سندھ اسمبلی میں اردو زبان کے حوالے سے پیش کی گئی قراداد کثرت رائے سے مسترد ہوگئی، کیا یہ لسانی تعصب ہے یا آئین کا تقاضہ؟
مصطفی کمال: اس قراداد کو پیش کرنے والے لوگ غلط ہیں۔ دیکھیں! اگر کوئی ہیرا فروخت کرنے جارہا ہے اوربدبو دار لباس زیب تن کیا ہوا ہے تو اس سے وہ ہیرا کوئی بھی نہیں خریدے گا، سلیز مین کی بہت اہمیت ہوتی ہے، سلیز مین ایسا ہوتا چاہیئے جو مٹی کو بھی سونا بنا کر فروخت کر دے، یہ سیلزمین ہی برے ہیں، میں نے کہا نہ! جتنا یہ اردو، اردو کریں گے اتنا ہی ستیاناس ہوگا۔
اے آر وائی نیوز: آج کل سوشل میڈیا کہ حوالے سے بہت گرما گرم بحث چل رہی ہے، پابندی لگانے کی بھی باتیں ہیں ، کیا پابندی کوئی حل ہے ؟
مصطفی کمال: چیزوں کی اصلاح ضروری ہے، پابندی کوئی حل ہی نہیں ہے، کیا گاڑی چلانے پرپابندی عائد کردی جائے کہ جی اس سے تو حادثات پیش آتے ہیں،یہ تو کام نہ کرنے والی بات ہے، یہ بتائیں کہ آج کے دور میں کیسےInformation flow کو روکا جاسکتا ہے، درستی کے لیے چیلنج کو قبول کرنا چاہیئے۔
اے آر وائی نیوز: فوجی عدالتوں کے حوالے سے آپ کا کیا تجزیہ ہے؟
مصطفی کمال: فوجی عدالتیں نہیں ہونی چاہیں مگر وقت کی ضرورت ہیں۔ گذشتہ دوسالوں میں بہتر کام ہوجانا چاہیئے تھا تاہم یہ ممکن نہیں ہوا، اور نوبت وہی دوسال پہلے والی آگئی، ابھی بھی وقت ہے ادارے اپنے اندر بہتری لائیں تاکہ پھر دوسال بعد ہم اس بات پر گفتگو نہ کر رہے ہوں۔
اے آر وائی نیوز: پاکستان کی جمہوریت کو اصل خطرہ کس سے ہے؟
مصطفی کمال: پاکستانی جمہوریت سے، کیونکہ جو جہموریت ہمارے یہاں ہے وہ جمہوریت ہے ہی نہیں۔