اگر سلطنت عثمانیہ ابھی بھی جاری و ساری ہوتی تو عثمان بایزید اپنے تمام جاہ و جلال کے ساتھ اس سلطنت کے سلطان ہوتے لیکن وقت کی پاٹ میں پستے جلا وطن عثمان بایزید کبھی لائبریری میں کتابیں درست کرتے تو کبھی بچوں کے لیے پتلی تماشہ کرتے اور ہمہ وقت اپنی بیمار ماں(سابقہ ملکہ عالیہ سلطنت عثمانیہ) کی دیکھ بحال کرتے کرتے اس راہ عدم سے کوچ کر گئے۔
اپنے دوستوں اور احباب میں نہایت شفیق، بذلہ سنج اور ہر ایک کے کام آنے والی شخصیت کے طور پر پہچانے جانے والے عثمان بایزید ساری عمر محنت مزدوری کرتے رہے اور شادی نہیں کی جو قلیل علالت کے بعد 6 جنوری 2017 کو92 سال کی عمر میں جہان فانی سے کوچ کر گئے یوں عثمانیہ سلطنت کا آخری وارث بھی منوں مٹی تلے دب گیا۔
بایزید 23 جون کو جلاوطنی کے دوران پیدا ہوئے جہاں دو سال بعد ہی ان کے والد اور سلطان سلطنت عثمانیہ محمد ششم دار فانی سے کوچ کر گئے اسی طرح ایک ایک کر بچے کچے اہل خانہ بھی خالق حقیقی سے جا ملے اور آخر میں وہ اپنی والدہ کے ہمراہ اکیلے رہ گئے جو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں تو سلطنت عثمانیہ کے آخری وارث عثمان بایزید تن تنہا ہی زندگی بسر کرنے لگے تھے
سلطنت عثمانیہ ۔۔۔۔۔۔ ایک تعارف
سلطنت عثمانیہ یا خلافت عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہنے والی ایک مسلم سلطنت تھی جس کے حکمران ترک تھے۔ اپنے عروج کے زمانے میں (16 ویں – 17 ویں صدی) یہ سلطنت تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کا بیشتر حصہ اس کے زیر نگیں تھا۔ اس عظیم سلطنت کی سرحدیں مغرب میں آبنائے جبرالٹر، مشرق میں بحیرۂ قزوین اور خلیج فارس اور شمال میں آسٹریا کی سرحدوں، سلوواکیہ اور کریمیا (موجودہ یوکرین) سے جنوب میں سوڈان، صومالیہ اور یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ مالدووا، ٹرانسلوانیا اور ولاچیا کے باجگذار علاقوں کے علاوہ اس کے 29 صوبے تھے۔
سلطنت عثمانیہ ۔۔۔۔ آغاز
غازی امارات کی خود مختیار ریاستیں قائم کی تھیں ان میں مغربی اناطولیہ میں ایک سردار عثمان اول حکمران تھے جو بازنطینی کی کمزور ریاست سے بھی چھوٹی تھی جس کے باعث بازنطینی کی جانب سے حملوں کا سلسلہ جاری رہتا جس کا عثمان خان اول نے بڑی بہادری اور جونمردی سے نہ صر فمقابلہ کیا بلکہ پیش قدمی کرتے ہوئے بروصہ شہر پر بھی اپنی حکمرانی قائم کی جس کے بعد عثمان خان اول کا 29 جولائی 1326 میں تو انتقال ہو گیا لیکن سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھ گیا تو وقت کے ساتھ ساتھ طول پکڑتی گئی۔
سلطنت عثمانیہ ۔۔۔ بحران شکن قوم
تاہم 1402 میں تیمو لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم کو شکست فاش دے کر حراست میں لے لیا لیکن عثمانیوں نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل جدو جہد اور جنگ و جدل کے بعد اپنی سلطنت کو نہ صرف بحال کر لیا بلکہ چند ہی عشروں میں قسطنطنیہ کو بھی فتح کر لیا جس کا وہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر جاتا ہے۔
سلطنت عثمانیہ ۔۔۔ زوال
ہر عروج کو زوال ہوتا ہے جس کے ہر دور میں کچھ علیحدہ علیحدہ وجوہات ہوتی ہیں جن میں داخلی و خارجی حالات بھی کار فرما ہوتے ہیں لیکن حکمرانوں کی نا اہلی، عیش و عشرت اورتساہل پسندی یکساں وجوہات میں شامل ہیں۔
چنانچہ ترک میں آنے والی نئی تبدیلیوں کے باعث آخری سلطان محمد ششم وحید الدین 17 نومبر 1922 کو ملک چھوڑ گئے جس کے بعد 24 جولائی 1923 کو باضابطہ طور پر ترک جمہوریہ کو تسلیم کر لیا گیا اور چند ماہ بعد 3 مارچ 1924 کو خلافت کے خاتمے کا بھی اعلان کردیا گیا اور سلطان اور ان کے اہل خانہ کو ناپسندیدہ اشخاص قرار دے کر جلا وطن کر دیا گیا۔
سلطان محمد ششم کی جلاوطنی کے تین ماہ بعد ہی عثمان بایزید کی پیدائش ہوئی اور اپنے بھائیوں اور کزن میں واحد اولاد تھے جن کی پیدائش پر توپوں کی سلامی دی گئی اور نہ شاہی انعامات و اکرام تقسیم کیے گئے اور ان کی پیدائش کے دو سال بعد ہی سلطان محمد ششم بھی انتقال کر گئےتھے۔