کراچی : جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ تبدیلی عسکری قوت سے نہیں بلکہ عوام کی طاقت سے لائی جاسکتی ہے اسی لیے ہم پارلیمانی نظام کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔
وہ قصرِ ناز کراچی میں بشپ نزیر عالم کی سینکڑوں ساتھیوں سمیت جمعیت علمائے اسلام میں شمولیت کے موقع پر خطاب کررہے تھے انہوں نے کہا کہ آج 23 مارچ کے موقع پر بشپ نزیر عالم کی جے یو آئی میں شمولیت باہمی وحدت، ملک اور انسانیت کے لئے نیک فعال ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ حضور ﷺکی تعلیمات کو کسی ایک مذہب یا فرقے تک محدود نہیں کیا جاسکتا اس لیے ہم نے اپنی مذہبی شناخت کو تحلیل نہیں کیا بلکہ ہمیں دنیا کو اسلام کے مطابق لے کر چلنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سیکولر اسلام پر تنقید کرتے ہیں تاہم اقلیت اسلام کے متعلق جو پیغام دنیا کو دے گی وہ موثر ہوگا اس کے علاوہ ہمیں خواتین کے حقوق دینے پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیوں کہ ہمارا نظریاتی طور پر تو اختلاف ہوسکتا ہے مگر حقوق کے بارے میں نہیں اس لیے ہمارے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کے لوگ آسکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہا جاتا ہے لیکن ہمیں بتایا جائے کہ 70 سال دور اقتدار میں ہم کتنا عرصہ اقتدار میں رہے اور ہم نے کہاں رکاوٹ کھڑی کی ہم پر وہ الزامات نہ لگائے جائیں جو ہم سے سرزد ہی نہیں ہوئے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے اور اس سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا اس لیے اسلامی ریاست میں تمام لوگ محفوظ ہونے چاہئیے اور سب کو یکساں حقوق حاصل ہونا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ہم پارلیمانی اور جمہوری نظام کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس ملک کو زندہ رکھنے کے لئے جمہوری اور پارلیمانی نظام لازم اور ملزوم ہے سب جان لیں کہ تبدیلی کا سرچشمہ عوام ہیں اور انقلاب بھی سیاسی قیادت سے آئے گا کسی عسکری قیادت سے نہیں خون بہائے بغیر مستقبل کی جدوجہد کا تعین کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جب خیبر پختون خواہ میں میرے والد وزیراعلیٰ تھے تو اس وقت جب تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو میرے والد نے مشنری اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لینے کی مخالفت کی اسی طرح ہم بھی اپریل میں کے پی کے میں ہونے والی صد سالہ تقریب میں تمام جماعتوں اور مذاہب کے لوگوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پگڑی اور داڑھی کے بارے میں منفی تاثر پھیلایا جاتا ہے لیکن جب کوئی ہماری صف میں شامل ہوتا ہے تو اسے حقائق کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کیسے اقلیتوں کو سینوں سے لگاتے ہیں اور ان کا تحٍظ کرتے ہیں۔