ویب سرفنگ کے دوران آپ نے اس قسم کی چیزیں یقیناً دیکھی ہوں گی جن میں آپ کو کچھ حروف دکھائے جاتے ہیں نہیں آپ کو ٹائپ کرنا ہوتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مقصد کیا ہے اور اس ٹیکنالوجی سے یہ کیسے معلوم کیا جاتا ہے کہ کمپیوٹر پر کوئی انسان موجود ہے یا نہیں اور کہیں کوئی روبوٹ تو ویب پیج پر کام نہیں کر رہا۔
اس ٹیکنالوجی کو کاپچا کہا جاتا ہے جسے سنہ 2003 میں کارنیگی میلون یونیورسٹی میں ایجاد کیا گیا تھا تاکہ ویب سائٹس پر صرف انسانوں کو ہی رسائی دی جائے – یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ کاپچا کا تلفظ انگریزی کے لفظ کیپچر سے ملتا جلتا ہے جسے مجرموں کے پکڑنے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہےاس ٹیکنالوجی میں انسانوں کی شناخت کے لیے انہیں ایسے امیج دکھائے جاتے ہیں جن میں کچھ حروف کی تصویر ہوتی ہے جنہیں جان بوجھ کر گڈمڈ کر دیا جاتا ہے ۔ اکثر انسان ان حروف کو دیکھتے ہی شناخت کر لیتے ہیں لیکن روبوٹس اور کمپیوٹر پروگرام انہیں شناخت نہیں کر پاتے
اس ٹیکنالوجی کا مقصد یہ ہے کہ آٹومیٹک بوٹس (یعنی کمپیوٹر پروگرام جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ انسان ہیں) کو بوگس انفارمیشن فراہم کرنے، کمنٹس کرنے یا ویب سائٹ کے لنک ڈالنے سے اور ہیکرز کو ویب سائٹ پر حملہ کرنے، صارفین کا ڈٰیٹا چرانے، یا پاس ورڈ چرانے سے روکا جاسکے
آج کل ہر روز کروڑوں کاپچا استعمال ہوتے ہیں چنانچہ کروڑوں لوگ ان الفاظ کو دیکھ کر انہیں دوبارہ ٹائپ کرتے ہیں – کیا ان کروڑوں لوگوں کی توجہ کا کوئی کارآمد استعمال بھی ممکن ہے؟ جی ہاں – اگرچہ کاپچا کے الفاظ کو جان بوجھ کر گڈمڈ کر دیا جاتا ہے لیکن اگر کہیں ایسے پرنٹ کیے ہوئے حروف موجود ہوں جو کسی وجہ سے گڈمڈ ہو چکے ہوں اور کمپیوٹر انہیں شناخت نہ کر پاتا ہو تو یہی لوگ ایسے حروف کو بھی شناخت کرنے میں مدد دے سکتے ہیں
کئی لوگوں کی خواہش تھی کہ بہت سی کتابوں کو سکین کر کے ان کے متن کو کمپیوٹرز کے ذریعے ٹیکسٹ میں تبدیل کر لیا جائے – چنانچہ کچھ ماہرین نے ایک نئی ٹیکنالوجی ایجاد کی جسے ری کاپچا کا نام دیا گیا – ہر سکین شدہ کتاب کے تمام حروف کے امیجز کا ڈیٹا بیس بنایا گیا اور ایسے حروف کو کاپچا ٹیکنالوجی کے ذریعے ان لوگوں کے سامنے پیش کیا جانے لگا جنہیں یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ انسان ہیں کوئی روبوٹ نہیں – اس طرح ایک تیر سے دو شکار ہونے لگے – ایک تو اس بات کی شناخت ہونے لگی کہ ویب سائٹ کوئی انسان ہی وزٹ کر رہا ہے کوئی روبوٹ نہیں اور دوسرے سکین شدہ کتابوں کے پرنٹڈ حروف ٹیکسٹ میں تبدیل ہونے لگے
سنہ 2009 تک دنیا میں ہر روز دس کروڑ حروف اور الفاظ کاپچا ٹیکنالوجی کی مدد سے شناخت کیے جارہے تھے جس سے ہر سال 25 لاکھ کتابیں آن لائن مہیا کی جارہی تھیں – درایں اثنا گوگل اور کئی دوسری بڑی کمپنیاں بھی لاکھوں کی تعداد میں ایسی کتابوں کو سکین کر کے آن لائن ڈال رہی تھیں جن کے حقوق عام ہوچکے ہیں یعنی اب یہ کتابیں بغیر رائلٹی کے چھاپی اور تقسیم کی جاسکتی ہیں – (یہ کام اب تک جاری ہے) – تاہم سنہ 2009 تک ان کتابوں کو سکین کر کے صرف سکین شدہ صفحوں کے امیجز آن لائن ڈال جاتے تھے جنہیں پڑھا تو جاسکتا تھا لیکن ان میں متن کی سرچ کرنا ممکن نہیں تھا – چنانچہ سنہ 2009 میں گوگل نے ری کاپچا کے تمام حقوق خرید لیے تاکہ ان تمام کتابوں کے متن کو کمپیوٹر کے ذریعے ٹیکسٹ میں تبدیل کر دیا جائے جسے پڑھنے والے سرچ بھی کر سکیں۔
چنانچہ اس وقت سے دنیا بھر میں ویب سرفنگ کرنے والے لوگ انجانے میں علم کی بہت بڑی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور ان کتابوں کے متن کو ٹیکسٹ میں تبدیل کر رہے ہیں – ایسا کرنے کے لیے گوگل نے تمام سکین شدہ صفحات کے امیجز کو کانٹ کتر کر کروڑوں چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیا اور ہر حصے کو ایک منفرد آئی ڈی دے دیا گیا – اب جب بھی کسی ویب سائٹ پر اس بات کی ضرورت پڑتی ہے کہ اس پر انسان کی موجودگی کو کنفرم کیا جائے تو اسے دو شبیہیں دکھائی جاتی ہیں – ایک تو وہ شبیہہ جسے ری کاپچا سافٹ ویئر نے خود ترتیب دیا ہوتا ہے تاکہ یہ شناخت ہوسکے کہ استعمال کرنے والا انسان ہے یا روبوٹ اور دوسری ان سکین شدہ کتابوں کی ایک کترن جس پر کچھ حروف ہوتے ہیں – ہر کترن کو بہت سے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے – استعمال کرنے والا ان دونوں کے حروف پہچان کر انہیں اپنے کی بورڈ سے ٹائپ کرتا ہے – پہلی شبییہہ کے ٹائپ شدہ حروف سے سافٹ ویئر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ استعمال کرنے والا انسان ہے یا نہیں – دوسری شبیہہ کے حروف ایک ڈیٹابیس میں ڈالے جاتے ہیں جہاں اس شبیہہ سے متعلق وہ حروف ہوتے ہیں جو بہت سے دوسرے لوگوں نے اسی شبیہہ کو دیکھ کر ٹائپ کیے – جب ایک شبیہہ پر بہت سے لوگوں کے جوابات اکٹھا ہوجاتے ہیں تو ان میں سے جو جواب سب سے زیادہ لوگوں نے دیا ہوتا ہے اسے درست جان کر ان حروف کواس شبیہہ کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا ہے اور ایک مختلف ڈیٹا بیس میں ڈال دیا جاتا ہے جس میں ایسی شبیہوں کے حروف ہوتے ہیں جن کی درست شناخت کی جاچکی ہے ۔
اس طرح آہستہ آہستہ پوری کی پوری کتاب کا متن ‘خود بخود’ ٹیکسٹ میں متقل ہوجاتا ہے – جونہی کسی کتاب کے تمام حروف ڈی کوڈ ہو جاتے ہیں اس مکمل شدہ کتاب کے متن کو جدید فانٹس میں تبدیل کرکے آن لائن ڈال دیا جاتا ہے۔
اب تک گوگل نے تمام کی تمام گوگل بکس ڈیجیٹل ٹیکسٹ میں منتقل کر کے آن لائن ڈال دی ہیں – اب تک ڈھائی سے تین کروڑ کتابیں آن لائن ڈالی جاچکی ہیں اور اسے دنیا کی سب سے بڑی لائبریری قرار دیا جارہا ہے – اس کے علاوہ گوگل نے نیو یارک ٹائمز اخبار کے تمام پرانے ایڈیشنز کو ڈیجیٹل ٹیکسٹ میں منتقل کرکے آن لائن ڈال دیا ہے – اب گوگل نے میگزینز کو سکین کرنا شروع کیا ہے اور انہیں بھی آن لائن ڈالا جارہا ہے – اس کے علاوہ گوگل میپ میں موجود تصاویر میں سے سڑکوں کے نام اور گلیوں کے نمبروں کی تصویروں کو ری کاپچا میں ڈالنا شروع کر دیا گیا ہے تاکہ گوگل میپس کے تمام ڈیٹا بیس کو بھی سرچ کے قابل بنایا جاسکے۔
کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ ہیکرز نے کاپچا کے امیجز کو بھی کمپیوٹر کے ذریعے ڈی کوڈ کرنا سیکھ لیا ہے اور کاپچا کو دھوکا دینا ممکن ہوگیا ہے – گوگل نے شروع شروع میں کاپچا کے امیجز کو زیادہ مشکل بنانے کی کوشش کی تاکہ کمپیوٹرز انہیں حل نہ کرسکیں – اس سے ایک تو یہ مشکل ہوئی کہ انسانوں کے لیے بھی ان امیجز کو پڑھنا مشکل ہوگیا اور دوسرے یہ کہ ہیکرز کے کمپیوٹرز الگورتھم بھی مسلسل بہتر ہورہے ہیں اور ان کمپیوٹرز نے ان مشکل امیجز کو بھی ڈی کوڈ کرنا سیکھ لیا۔
چنانچہ اب گوگل نے ایک نئی ٹیکنالوجی اپنائی ہے۔ اب جب آپ اس چیک باکس پر کلک کرتے ہیں تو یہ ٹول آپ کے کمپیوٹر کا آئی پی ایڈرس آپ کا جغرافیائی مقام، مقامی وقت، آپ کی کرسر کی حرکات کی تفصیل یعنی آپ اس پیج پر کیسے سکرولنگ کر رہے تھے، کس مقام پر کتنی دیر ٹھہرے وغیرہ، اور بہت سی دوسری تفصیلات گوگل کو ارسال کرتا ہے۔ گوگل کے پاس آپ کی سکرولنگ کی تمام ہسٹری لمحہ بہ لمحہ موجود ہوتی ہے چنانچہ گوگل کے کمپیوٹر عموماً یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس ویب پیج پر آپ ہی سکرولنگ کر رہے ہیں یا کوئی ہیکر آپ کا کمپیوٹر ہیک کر کے سکرولنگ کر رہا ہے – چنانچہ گوگل اس سافٹ ویئر کو آل کلیئر کا سگنل دے دیتا ہے ۔اگر بالفرض گوگل کے کمپیوٹر یہ فیصلہ نہ کرپائیں کہ آپ کے کمپیوٹر پر کوئی انسان ہے کا کوئی بوٹ، تو گوگل کی زنبیل میں اور بھی بہت سے خفیہ ہتھیار ہیں جن کی مدد سے انسان اور کمپیوٹر کی تفریق ممکن ہے۔
نوٹ: یہ مضمون سماجی رابطے کے پیج پر قدیر قریشی نے شائع کیا تھا۔ یہاں اسے معلوماتِ عامہ کے فروغ کے لیے شائع کیا جارہا ہے
اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔