جمعرات, جولائی 3, 2025
اشتہار

سعید اجمل نے کرکٹ کو خیر آباد کہنے کا اعلان کردیا

اشتہار

حیرت انگیز

لاہور : معروف اسپینر باؤلر سعید اجمل نے کہا ہے کہ نیشنل ٹی 20 ایونٹ میرا آخری ایونٹ ہوگا جس کے بعد کرکٹ کو خیر آباد کہہ دوں گا اور اپنی کرکٹ اکیڈمی پر توجہ مرکوز رکھوں گا.

اس بات کا اعلان معروف کرکٹر نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام اسپورٹ روم میں میزبان نجم العارفین سے بات کرتے ہوئے کیا سعید اجمل نے کہا کہ میں کسی ٹیم پر بوجھ نہیں بننا چاہتا.

انہوں نے کہا کہ راولپنڈی میں جاری قومی ٹی ٹوئنٹی کیرئیر اُن کا آخری ٹورنامنٹ ہوگا کیوں کہ میں نہیں چاہتا کہ لوگ میری سلیکشن پرانگلیاں اٹھائیں، قوم کے لیے بہترین کرکٹ کھیلی اور پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

’’ دُسرا ‘‘ سے دنیائے کرکٹ کے خطرناک ترین بلے بازوں کو گنی ناچ نچانے والے سعید اجمل نے 35 ٹیسٹ میچوں میں 178 کھلاڑیوں کا شکار کیا جب کہ 113 ایک روزہ میچوں میں 184 وکٹیں لیں اور 64 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 85 بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی.

چالیس سالہ سعید اجمل 14 فروری 1977 میں فیصل آباد پیدا ہوئے اور ڈپارٹمینٹل کرکٹ کا آغاز زرعی ترقیاتی بینک اور واپڈا سے شروع کرتے ہوئے قومی کرکٹ ٹیم تک پہنچے جس کے لیے انہیں سخت محنت کرنا پڑی اور ٹیم میں جگہ پانے کے لیے طویل انتظار کیا جس کے باعث ان کا ڈیبیو 31 سال کی عمر میں 2008 میں ہوا.

سعید اجمل نے اپنے انٹرنیشنل کریئر کا آغاز 2 جولائی 2008 میں کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں بھارت کے خلاف ایک روزہ میچ کھیل کر کیا جب کہ پہلا ٹیسٹ میچ سری لنکا کے خلاف 2009 میں کھیلا اور پہلا ٹی ٹوئنٹی میچ 2009 میں ہی آسٹریلیا کے خلاف کھیلا.

دُسرا کے ساتھ وہ اپنیہ فلائٹ بولنگ سے بلے بازوں کو مشکلات میں مبتلا رکھتے گو انہوں نے 32 سال کی عمر میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا لیکن فٹنس کا یہ عالم تھا کہ پانچ کھلاڑیوں کو ڈریسنگ روم کی راہ دکھائی اور یوں کامیبابیوں کے سفر کا شاندار آغاز کیا.

سعید اجمل 2011 میں اپنے عروج پر نظر آئے جب انہوں نے دیگر اسپینر باؤلرز کے مقابلے میں دُسرا اور فلائٹ بولنگ کے ساتھ ساتھ دوسری ورائٹیز میں ایسی مہارت حاصل کرلی تھی بناء لائن اور لینتھ میں بگاڑ کے ایک ہی اوور میں تمام ورائٹیز کرگذرتے جس سے بلے باز خود سنبھالے نہیں سنبھال پاتا.

سعید اجمل 2011 کے سیزن میں آٹھ ٹیسٹ میچوں میں 50 وکٹیں لے کر ٹیسٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر بن گئے اور 2012 کے اوائل میں محض تین میچوں میں 24 وکٹیں لے کر دنیائے کرکٹ کے اسپینرز باؤلرز میں سب سے ممتاز مقام حاصل کرلیا.

تاہم 2008 میں جب سعید اجمل نے ایک روزہ میچوں میں ایشیاء کپ میں اور متحدہ عرب امارات میں آسٹریلین بلے بازوں کو جس طرح زچ کیے رکھا اس کے بارے مین خود بلے بازون کا کہنا تھا کہ اجمل سیعد کے دُسرا کو سمجھنا ناممکن ہے.

کامیابیوں کے اس سفر میں پہلی رکاوٹ بھی 2008 میں اس وقت آئی جب انہیں بولنگ ایکشن پر اعتراض کا سامنا رہا اور آئی سی سی نے انہیں ٹیسٹ دینے کا کہا جس میں وہ کامیاب بھی رہے اور بعد ازاں 2009 میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار بھی ادا کیا.

تاہم 2014 میں انٹنرنیشنل کرکٹ کونسل نے سعید اجمل کے باؤلنگ ایکشن غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان پر کرکٹ کھیلنے پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ 36 سالہ اسپینرز نے 15 ڈگری کے زاویے سے باؤلنگ کی جس کی اجازت نہیں چنانچہ بولنگ ایکشن درست کیے بغیر وہ میچ کھیلنے کے لیے نااہل رہیں گے.

جس کے ایک سال بعد پاکستان کرکٹ بورڈ اور ماضی کے اسٹار اسپینر ثقلین مشتاق کی معاونت سے انہوں نے اپنا باؤلنگ ایکشن درست کیا اور دوبارہ ٹیسٹ کے بعد انہیں کلیئر قرار دیتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کی اجازت دے دی گئی.

بد قسمتی سے ان کا نیا باؤلنگ ایکشن اتنا کارگر ثابت نہیں ہوسکا اور تبدیل شدہ باؤلنگ ایکشن کے ساتھ وہ کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے اور پاکستان سپر لیگ میں بھی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے جب کہ بڑھتی عمر بھی ان کی راہ کی رکاوٹ بن گئی اس دوران کئی نوجوان اسپینرز جیسے رضا حسن، شاداب خان اور دیگر یکے بعد دیگرے ٹیم کا حصہ بنے.


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں