ییل یونیورسٹی میں ارمان کی ساتھی انجینئرز نے اس کی فاؤنڈیشن میں بھرپور دلچسپی لی تھی، کیونکہ قدرتی آفات پاکستان ہی کا نہیں بلکہ دنیا کے ہر خطے میں
بسنے والے افراد کا مشترکہ مسئلہ ہے اور بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ نے اِن آفات کی شرح ایشیائی ممالک
سمیت یورپ اور امریکہ میں بھی تیز تر کردی ہے "۔۔
"تقریباٌ چھہ برس قبل سپارکو کے پلیٹ فارم سے پاکستانی انجینئرز نے ڈیزاسٹرمینجمنٹ کی جو تکنیک متعارف کروائی تھی اور پھر۔ قدرتی آفات سے نہتی لڑتی عوام کے ریلیف کے لیئے جس طرح انہوں نے سیو دی ارتھ کو متحرک کیا ۔۔ آج ایشیا ء کے کئی ممالک اسے رول ماڈل کو طور پر اپنائے ہوئے تھے "۔
اسی ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے کلک کریں
"اس جدوجہد کے دوران ارمان یوسف نے ہی نہیں، آسائشوں اور ائیر کنڈیشنڈ میں پلنے والے اُس جیسے ہزاروں نوجوانوں نےاپنے ہم وطنوں کی غربت ،
مفلوک الحالی اور اَبتر حالت کو بہت قریب سے دیکھ کر زندگی کا اصل مفہوم جانا تھا ۔۔۔
"انسانی زندگی کی حقیقت کیا ہے "۔۔؟؟
’’ محض روٹی ،کپڑا اور مکان ۔۔ وہ اِس دنیا میں آتا بھی خالی ہاتھ ہے ۔۔ اور جاتے وقت بھی تہی داماں ہی ہوتا ہے‘‘ ۔۔
ارمان یونیورسٹی سے اپنا کورس مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فاؤنڈیشن کے لیے بھی بھرپور سرگرم تھا ۔اور اِس وقت اس کا بھرپوردھیان تھر
اورچولستان کے علاوہ ملحقہ ریگستانی علاقوں میں قحط ، خشک سالی اور بھوک سے لڑتی عوام۔۔ کو ریلیف دلانے کی سٹرٹیجی
بنانے میں پر تھا جس میں اُس کے ساتھی انجینئرز مائیکل اور سٹیون اُس کی بھرپور معاونت کر رہے تھے ۔
"تھر میں تیزی سے پھوٹتے وبائی امراض سے ہونے والی اموات کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی تھی ۔ جس کے بارے میں اتھاریٹیزٹی وی چینلز پر۔’’ منہ پھاڑ کے بیان دے دیا کرتی تھیں کہ بچے مر رہے ہیں ‘بابا تو ہم کیا کرے۔ بڑے بھی تو مرتے ہیں ۔‘‘
’’ مرنا تو ایک دن ہم سب نے ہے لیکن ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اوروں کی موت ہمیں اپنا آخری وقت یاد نہیں دلاتی ۔۔ہم دوسروں کو قبر میں
اتارتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ انسان کی اصل یہی مٹی ہے ۔۔اربوں کھربوں کے بینک بیلنس ، محل اور
جائیدادیں جمع کرنے والوں کی قبر کا سائز بھی اُتنا ہی ہوتا ہے جتنا ایک مفلوک الحال مزدور کی قبر کا ، کروڑوں کے برانڈڈ ملبوسات پہننے والے کبھی اپنے لیے
لاکھوں کا سٹائلش کفن تیار کروا کر کیوں نہیں رکھتے ۔۔؟؟
شایدِ اس لیے کہ اِس حقیقت سے سب ہی بخوبی آگاہ ہیں ۔۔۔کہ قبر میں جا کر ہر شے نے مٹی ہی ہوجانا ہے ۔‘‘
***********
منتہیٰ کو ہالی ووڈ کی فلمز’’ گریویٹی‘‘ اور’’ انٹرسٹیلر‘‘ اسی لیے سب سے زیادہ پسند تھیں کہ اِن میں خلا کی افسانوی کہانیوں کے بجائے وہ کڑوا سچ دکھایا گیا تھا جو ’’ خلا
کے سفر‘‘ کو ایک طلسماتی دنیا کے بجائے ۔۔ ایک مشکل ترین چیلنج کے طور پر پیش کرتا تھا ۔
دل پر بہت سا بوجھ لے کر وہ ہاسٹن کے جانسن سپیس سینٹر میں اپنی ٹریننگ شروع کر چکی تھی ۔ جسے درحقیقت دنیا کی مشکل ترین ٹریننگز میں شمار کیا
جاتا ہے ۔۔ خلا میں انسانی جسم کو لاحق سب سے بڑا خطرہ گریویٹی کا ہے جس کے سبب بڑے بڑے سورما
خلا باز مختلف طرح کے جسمانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔۔
صبح شام انہیں شدید مشکل ایکسرسائز کے مراحل سے گزرنا ہوتا تھا ۔۔ اور پھر ہر دو یا تین دن کے بعد ان کا مکمل جسمانی معائنہ کیا جاتا ۔۔
منتہیٰ کے ساتھ انڈیا کی نندا اور ربیکا بھی تھیں جو اس کی نسبت زیادہ تناور اور مضبوط خدوخال کی مالک تھیں مگر منتہیٰ کی ذہانت اور چیلنجز سے مردانہ وار نمٹنے کی
قدرتی صلاحیت ہر چیز پر بھاری تھی۔ٹریننگ سینٹر کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ دن رات ایک ساتھ گزارنے کے باوجود ہر کوئی ایک دوسرے سے لا تعلق اور بیگانہ رہتاتھا ۔ منتہیٰ کی اپنے خول میں بند رہنے والی طبیعت کے لیے یہ ماحول کسی نعمتِ مترقبہ سے کم نہ تھا ۔
اِس دھان پان سی لڑکی کی ذہانت نے ہی نہیں ۔۔ مضبوط قوتِ ارادی اور مشکل حالات سے نمٹنے کی صلاحیت نے ناسا کےٹرینرز کو کچھ نئے تجربات پر اُکسایا
تھا ۔
چار ماہ سے تربیت پانے والے تیس مرد و خواتین کی پراگریس رپورٹ ان کی مکمل پروفائل کے ساتھ ناسا کے مشن کنٹرول کرنے والے سینئر انجینئرز اور
سائنسدانوں کے سامنے کھلی پڑی تھیں اور وہ سب سر جوڑے مستقبل کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے ، فی الوقت ان کی سب سے بڑی ضرورت پیگی واٹسن کی جگہ انٹر نیشنل سپیس سٹیشن پر طویل مدت تک قیام کے لیے کسی جاندار ،توانا اور مضبوط اعصاب رکھنے والی خاتون کا انتخاب تھا ۔
تربیت پانے والی دس خواتین میں اب تک سب سے بہتر کارکردگی منتہیٰ کی تھی مگر سینئرز اس کے انتخاب میں اس لیے تذبذبکا شکار تھے کہ وہ نہ صرف مسلمان تھی بلکہ اس کا تعلق پاکستان سے تھا ، ایک ایسا ملک جسے اب دنیا بھر میں’’ دہشت گردوں ‘‘ کی
آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر اپنے مشن کی مناسبت سے انھیں جس ’’باکرہ پن‘‘ کی ضرورت تھی وہ کسی مغربی خاتون ہی نہیں انڈیا کی نندا اور ربیکا میں بھی ملنامشکل تھی۔
طویل میٹنگ میں بہت سے اہم فیصلے کرنے کے بعد ایک ایک کرکے سب اٹھ کر جاچکے تھے مگر منتہیٰ کا ٹرینر ایڈورڈ گہری سوچوںمیں غرق اپنی جگہ
بیٹھا رہا تھا ۔
کیا یہ لڑکی ان کی توقع کے مطابق معاون ثابت ہو سکے گی ‘‘۔۔؟؟
***********
ارمان کا ٹیلی کام کورس تکمیل کے آخری مراحل میں تھا اور ایک ماہ تک اس کی پاکستان واپسی طے تھی ۔ وہ مائیکل کے ساتھ اُس روز ہاسٹن میں تھا
جب سیل پر اسے منتہی ٰ کے حادثے کی خبر ملی ۔
اسپتال میں پٹیوں اور مشینوں میں گھری منتہیٰ کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان کا سانس ایک لمحے کوبند ہوا ۔۔
"اُسے وہ وقت یاد آیا جب وہ خود بھی۔۔ اِسی طرح ایک ہسپتال کے آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا ۔۔ اُسے توصرف چند گولیاں لگی تھیں ۔۔۔
مگر یہ لڑکی تو پلاسٹک کی ایسی گڑیا کے طرح بکھری پڑی تھی۔۔ جسے کسی ضدی شرارتی بچے نے
پرزے پرزے کر ڈالا ہو” ۔
دو روز پہلے پیرا گلائیڈنگ ٹریننگ کے آخری مرحلے میں بیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہوئے ۔۔ منتہی کا پیرا شوٹ کسی تکنیکی خرابی
کے باعث بر وقت کھل نہیں پایا تھا ۔۔ اور وہ انتہائی زخمی حالت میں ہسپتال لائی گئی تھی ۔۔ دو دن سے ڈوبتی
ابھرتی سانسوں کے ساتھ وہ زندگی اور موت کے درمیان معلق تھی ۔
ڈاکٹرز کا خیال تھا کہ اگر وہ بچ بھی گئی ۔۔۔” تو عمر بھر کی معذوری یقیناٌ اب اُس کا مقدر تھی "۔۔۔
اُس کی ایک جھلک دیکھ کر ارمان پلٹا تو پیچھے نینسی کھڑی تھی ۔۔۔ دونوں کی نظریں ملیں ۔۔کسی کے پاس بھی کہنے سننے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا ۔۔ وہ ایک
دوسرے سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر وقت کے فیصلے کا انتظار کرتے رہے ۔
دو روز تک ارمان اسپتال کے ایک ہی کونے میں بیٹھا رہا۔۔ نینسی اسے چائے ، کافی اور کھانے کی کوئی اور شے لا دیتی تو وہ اس کے اصرار پر جیسے تیسے زہر مار کر لیتا ۔۔جیسے
جیسے وقت گزر رہا تھا ۔ بھوک، نیند ، تھکاوٹ ۔۔ زندگی کا ہر احساس ختم ہوتا جا رہا
تھا ۔اور منتہی ٰ کی حالت میں رتی بھر بھی فرق نہ تھا ۔
"ایک دھندلی دھندلی سی یاد اتنے عرصے بعد بھی کہیں ذہن کے گوشوں میں اٹکی رہ گئی تھی۔۔چند برس قبل وہ خود بھی اسی کیفیت میں کئی روز تک وینٹی لیٹر پر پڑا رہا تھا اور عین اس وقت جب سانس زندگی سے اپنا ناتا توڑنے والی تھی تو ۔ماما کی دعا اسے موت کے منہ سے کھینچ کر زندگی کی طرف واپس لے آئی تھی”۔
اس نے اب تک پاکستان میں اپنی اور منتہیٰ کی فیملی کو اس حادثے کی اطلاع نہیں دی تھی۔جب کے دوسرے ذرائع جن سے انھیں خبر ملنے کا ندیشہ تھا ، ان کو بھی ارمان نے سختی سے تنبیہ کردی تھی۔ مگر اس وقت منتہیٰ کو دعا کی شدید ضرورت تھی اور وہ بھی براہِ راست عرش تک رسائی پانے والی ’’ماں‘‘ کی دعا کی۔
انہی سوچوں میں گم وی اپنے ہاتھ میں پکڑے سیل فون کو خالی نگاہوں سے تکنے میں مصروف تھا کہ یکدم اس کی سکرین روشن ہوئی
"پاپا کالنگ ‘‘۔۔
اُس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال ریسیو کی ۔۔ "ہیلو "۔۔
"ھیلو ارمان "۔ "تم کہاں ہو "۔۔؟؟ ۔”فوری طور پر ہاسٹن پہنچو۔۔ منتہیٰ کے حادثے کی اطلاع ہمیں آج ہی ملی ہے "۔۔ڈاکٹر یوسف کی آواز میں شدید تشویش تھی ۔۔۔
مگر دوسری طرف ۔۔ ہنوز خاموشی تھی ۔۔
"ارمان "۔۔ انہوں نے پکارا ۔۔ "بیٹا یہ وقت پرانی باتیں سوچنے کا نہیں ۔۔ ہم میں سے کوئی فوری طور پر وہاں نہیں پہنچ سکتا "۔۔
"پاپا ۔۔۔ پاپا میں تین دن سے یہیں ہاسپٹل میں ہوں "۔۔ اُس کے حلق سے بمشکل آوا زنکلی ۔۔
"اچھا "۔۔ ڈاکٹر یوسف چونکے ۔۔ "کیسی حالت ہے منتہی ٰ کی "۔۔؟؟
"وہ کیا بتاتا انہیں ۔۔پاپا اب وہ بہتر ہے”۔۔ "ڈونٹ وری "۔۔ حلق میں کوئی گولا سا آکر اٹکا
"اُوکے "۔۔۔ "تم فوراٌ فاروق صاحب سے رابطہ کرو ۔۔۔ وہ بہت پریشان ہیں "۔۔۔
اور اِس کے بعد جیسے کالز کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ۔۔ رامین ، ارسہ ، فاریہ ، ارحم ، شہریار ۔۔ ڈاکٹر عبدالحق مسلسل کئی روز تک وہ کسی
مشین کی طرح فیڈ جملے دوہراتا رہا ۔
"منتہی اب بہتر ہے ۔۔ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گی "۔۔۔
"لیکن وہ خود کو کیونکر یقین دلاتا ۔۔ جس طرح منتہیٰ کا جوڑ جوڑ فریکچر ہوا تھا ۔۔ اس کا زندہ بچنا محال تھا ۔بچ بھی گئی تو اب وہ محض ایک زندہ لاش تھی ۔۔ یہ کسی طور
ممکن نہیں تھا کہ وہ کبھی چلنے پھرنے کے قابل ہو سکے۔۔
مگر ارمان لا علم تھا۔۔۔”کہ معجزے کی اصل روح یہی ہے کہ انسان معجزے کا انتظار چھوڑ دے ۔دعا اور محبت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہیں”۔
اور بالاآخر وقت نے منتہیٰ کے حق میں فیصلہ دے دیا ۔۔وہ کبھی سیکنڈ پر کمپرومائز نہ کرنے والی لڑکی موت سے جیت کرزندگی کی طرف لوٹ آئی تھی ۔۔
"ہاں منتہیٰ دستگیر۔۔ دنیا کے جینیئس ترین مائنڈزسے جیت گئی تھی” ۔
جاری ہے
***********