اسلام آباد : سربراہ جمعیت علمائے اسلام مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فاٹا کے انضمام کا فیصلہ قبائیلیوں کی رضامندی اور اتفاق رائے سے ہونا چاہیے جس کے لیے وزیراعظم فاٹا سپریم کونسل سے ملاقات کریں گے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے سینیٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف قمر باجوہ سے وزیراعظم کے چیمبر میں ملاقات ہوئی اس موقع پر وزیراعظم شاہد خاقان، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ غفور حیدری اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی موجود تھے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فاٹا کا خیبر پختونخواہ سے انضمام کا فیصلہ آئین کے مطابق اور ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں کیا جائے کیوں کہ آئین سے ماورا فیصلہ قانونی پیچیدگیاں پیدا کردے گا چنانچہ فاٹا جرگے کے ساتھ مزاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے۔
آرمی چیف اور وزیراعظم سے ملاقات کے متعلق انہوں نے بتایا کہ ہمارا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں ہے، فاٹا سے متعلق اپنا مؤقف رکھا ہے کہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اور جہاں آئینی سقم موجود ہے اس پرآئینی ماہرین کی رہنمائی حاصل کی جائے گی۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید بتایا کہ وزیراعظم شاہد خاقان کو فاٹا سپریم کونسل سے ملاقات کی دعوت دی جسے انہوں نے قبول کرلیا تاکہ رکاوٹوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کیا جاسکے, ہمارا مطالبہ تھا کہ فاٹا کے مسئلے پر بحث کرائی جائے اور اس معاملے کے تمام زاویے دیکھے جائیں۔
اسی سے متعلق : فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، آرمی چیف
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ہماری تجاویز کا مثبت جواب دیا ہے جس کے امید ہو چلی ہے کہ اس اہم قومی مسئلے پر اتفاق رائے پیدا کرلیا جائے گا۔
خیال رہے فاٹا کا خیبرپختونخواہ سے انضمام پر تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں متفق ہیں تاہم جمعیت علمائے اسلام اور پختون خواہ ملی عوامی پارٹی ریفرنڈم کے ذریعے فیصلہ کرنے کے حامی ہیں جب کہ حکمراں جماعت اس معاملے پر اتفاق رائے کی خواہ ہے۔
یاد رہے 13 دسمبر 2017 میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے قبائلی عمائدین سے گفتگو میں کہا کہ فاٹا کی قومی دھارے میں شمولیت کی حمایت کرتے ہیں اور فاٹا کے بہادر عوام کی قربانیوں کے ذریعے جو کامیابیاں حاصل کی گئیں ہیں انہیں مزید مستحکم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
تجزیہ کاروں کا فاٹا انضمام سے متعلق اس ملاقات کو اہم قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اپنے موقف میں لچک دکھاتے ہوئے اس مسئلے کے حل کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جس کے لیے اگلے چند دن بہت اہمیت کے حامل ہیں۔