کراچی: عام طور پر لوگ نوکری حاصل کرنے کے لیے اپنے سی وی (ریزیومے) میں تعلیم اور تجربے کے حوالے سے غلط بیانی سے کام لیتے ہیں تاکہ اُن کا ذریعہ معاش چل سکے۔
تفصیلات کے مطابق تعلیم مکمل ہونے کے بعد ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے اچھی سے اچھی نوکری مل جائے تا کہ اُس کی بقیہ زندگی آرام و اطمینان کے ساتھ گزر سکے۔
نوکری کرنے والے حضرات بہتر سے بہتر روزگار کے لیے ایک کمپنی سے دوسرے ادارے منتقل ہوتے ہیں تاکہ اُن کی تنخواہ اچھی ہو اور زندگی پرآسائش بھی ہوجائے۔
کسی بھی ادارے میں نوکری حاصل کرنے کے لیے وہاں پر سب سے پہلے سی وی (ریزیومے) ارسال کیا جاتا ہے جس میں تعلیم، تجربہ سمیت دیگر چیزیں شامل ہوتی ہیں، اگر آپ کا کوائف نامہ ادارے کو درکار شخص کے عین مطابق ہوتا ہے تو پھر اگلے مرحلے میں انٹرویو ہوتا ہے جس میں کامیاب ہونے کے بعد نوکری مل جاتی ہے۔
مزید پڑھیں: سی وی بنانے کا مستند طریقہ
تاہم ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی لوگ اس قدر تجربے کار اور تعلیم یافتہ نہیں ہوتے جتنا وہ اپنے کوائف نامے میں درج کرتے ہیں اور پھر وہ جعلی کاغذات بنا کر نوکری حاصل کرتے ہیںْ
کیا غلط سی وی یا جعلی کاغذات کی بنیاد پر حاصل کی جانے والی نوکری کی آمدنی حلال ہے یا حرام؟
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جواب حاصل کرنے کے لیے یہ معاملہ مفتی اکمل کے سامنے رکھا گیا۔ اے آر وائی کیو ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مفتی اکمل کا کہنا تھا کہ جعلی کاغذات بنا کر نوکری حاصل کرنا جھوٹ اور فریب کے زمرے میں آتا ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں میں شامل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نوکری سے چھٹکارے کے لیے ملازمہ کی خوفناک حرکات
اُن کا کہنا تھا کہ اگر کسی جگہ پرنوکری مل جائے جہاں تجربہ 5 سال کا مانگا گیا ہے اور آپ دو سال میں اُس سے زیادہ مہارت حاصل کرچکے ہیں تو یہ غلط بیانی میں شمار نہیں ہوگا کیونکہ بہت سارے لوگ کم عرصے میں زیادہ مہارت حاصل کرلیتے ہیں جبکہ ادارے نے تعلیم کی جو شرط رکھی تھی اگر آپ نے وہ حاصل نہیں تاہم آپ کام کرنے کے قابل ہیں تو ان دونوں صورتوں تنخواہ جائز ہوگی۔