ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے اور نظم و ضبط کی عملداری میں ریڑھ کی ہڈی رکھنے والا عہدہ سیکٹر انچارج کا ہوتا ہے، ایک سیکٹر دس سے پندرہ یونٹس پر مشتمل ہوتا ہے اور عمومی طور پر ایک یونٹ بلدیاتی نظام کے ایک یونین کونسل یا وارڈ کے برابر ہوتا ہے جب کہ سیکٹر ایک ٹاؤن کے برابر ہوتے تاہم کچھ ٹاؤنز میں دو سیکٹرز بھی آتے ہیں.
سیکٹر انچارج دس سے بارہ رکنی سیکٹر کمیٹی کی سرپرستی کرتا ہے وہ نہ صرف تنظبیمی معاملات بلکہ اراکین اسمبلی کے چناؤ میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور اراکین اسمبلی اپنے ترقیاتی بجٹ کے استعمال اور روازنہ سیکٹر آفس میں حاضری کے لیے سیکٹر انچارج کا پابند ہوتا ہے اور علاقے میں بھی ایک سیکٹر انچارج کی خوب دھاک بیٹھی ہوتی ہے.
یوں تو کراچی میں ایم کیو ایم کے کم وبیش چوبیس سیکٹرز ہیں تاہم ان سیکٹرز انچارجز میں رئیس مما کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ دیگر انچارجز کی نسبت طویل عرصے سے اس عہدے پر فائز رہا ہے جو شاید کسی اور سیکٹر انچارج کے حصے میں نہیں آئی وہ مرکزی رہنماؤں کے قریب بھی سمجھا جاتا تھا جب کہ 1992 کے آپریشن کے بعد جب یہاں ایم کیو ایم حقیقی نے اپنا زور پیدا کیا تھا اسے توڑنے میں بھی رئیس مما نے اہم کردار ادا کیا.
رئیس مما کا نام ایم کیو ایم حقیقی کے ساتھ ہونے والے تصادم کے بعد منظرعام پر آنے لگا تھا اور کورنگی و لانڈھی تھانے میں کئی ایف آرز بھی درج ہوئیں 1999 کے بعد رئیس مما مخالف سیاسی جماعت کو کورنگی سے بھگانے میں کامیاب ہوا اور بہ طور سیکٹر انچارج ایم کیو ایم کو دوبارہ سے مضبوط و منظم کیا اور کئ نئے یونٹس آفسز کھولنے میں کامیاب ہوا.
رئیس مما کو میڈیا پر اس وقت شہرت ملی جب 2010 میں چکرا گوٹھ کے علاقے میں پولیس بس پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد پولیس اور ملزمان کے درمیان مورچہ بند فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں دو ملزمان کامران عرف مادھوری اور سہیل عرف کمانڈر کو زخمی حالت میں گرفتار کرلیا گیا تھا جنہوں نے دوران تفتیش رئیس مما کا نام لیا تھا.
رئیس مما کا نام عام انتخابات 2002، 2008، 2013 اور بلدیاتی الیکشن 2005 اور 2015 میں کورنگی اور لانڈھی میں ایم کیو ایم حقیقی اور جماعت اسلامی کے زیر اثر علاقے سے ایم کیو ایم کے نمائندوں کی کامیابی کے لیے متحرک اور سرگرم کردار کے طور ہر سامنے آیا جب کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کی تحقیقات میں بھی رئیس مما کا نام گردش کرتا رہا ہے.
رئیس مما نے اپنے عہدے کے دوران زیادہ تر کام حماد صدیقی کی سربراہی میں کیا جس کے باعث کہا جاتا ہے کہ وہ حماد صدیقی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھا اور اسی کے کہنے پر ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور سیاسی مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنایا کرتا تھا شاید یہی وجہ ہے کہ 2013 کے بعد حماد صدیقی کے منظر عام سے غائب ہونے کے بعد دبئی میں رئیس مما بھی روپوشی اور گمنامی کی زندگی بسر کررہا تھا.
بانی ایم کیو ایم کی 2013 میں رابطہ کمیٹی سے ناراضی اور رابطہ کمیٹی و کراچی تنظیمی کمیٹی کو معزول کرنے کے بعد نئی رابطہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ایم کیو ایم حقیقی سے واپس آئے عامر خان کو ڈپٹی کنونیر بنایا گیا جنہوں نے رئیس مما کو ماضی کی تلخیوں کے باعث سیکٹر کے عہدے پر بحال نہیں کیا اور انہیں مرکز کے الیکشن میں رپورٹ کرنے کو کہا گیا.
رئیس مما نے عامر خان کے فیصلے کو سنی ان سنی کرتے ہوئے مقررہ وقت تک مرکزی الیکشن سیل میں رپورٹ نہیں کیا جس پر نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے تحت رئیس مما کی تنظیمی رکنیت معطل کر کے کسی بھی قسم کی تنظیمی سرگرمیوں سے دور کردیا گیا تھا تاہم مارچ 2015 میں ایم کیو ایم کے مرکز پر چھاپے کے بعد سے رئیس مما روپوش تھا جسے آج ملائیشیا سے حراست میں لے لیا گیا.
دوسری جانب سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزم حماد صدیقی کو پہلے ہی دبئی میں حراست سے لے لیا گیا ہے جب کہ اس قبل بلدیہ ٹاؤن کے سابق سیکٹر انچارج رحمان بھولا کو ملائیشیا سے حراست میں لے کر پاکستان لایا جا چکا ہے اور آج رئیس مما کی ملائیشیا سے گرفتاری سے سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مظلوموں کو انصاف ملنے کی توقع پوری ہوتی نظر آرہی ہے.