اسلام آباد : آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی قانونی تشریح سےمتعلق کیس میں سپریم کورٹ نے نوازشریف کو دوبارہ نوٹس جاری کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف کی طرف سے کوئی پیش نہ ہوا تو یکطرفہ کارروائی کرینگے اور یکطرفہ کارروائی پیشی کے بعد کی کارروائی سے مختلف نہیں ہوتی، کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔
تفصیلات کے مطابق آئین کی شِق باسٹھ ون ایف جس کے تحت وزیراعظم نااہل ہوئے، کتنے عرصے کے لئے نااہل ہوئے اور اس سے متعلق کئی سوالات کے قانونی جائزے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثارکی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربینچ نے سماعت کی۔
سپریم کورٹ نے اس کیس میں نوازشریف کو دوبارہ نوٹس جاری کردیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جائزہ لینا ہے ڈکلیئریشن سے بنیادی حق متاثر ہوسکتا ہے یا نہیں، نوازشریف کیطرف سے کوئی پیش نہ ہوا تو یکطرفہ کارروائی کرینگے، یکطرفہ کارروائی پیشی کے بعد کی کارروائی سے مختلف نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا چاہتے ہیں لوگوں کو مؤقف پیش کرنے کا موقع ملے، جو کیس میں فریق نہیں انہیں بھی اسی لئے نوٹس ارسال کیا، جہانگیر ترین، نوازشریف کو بھی اسی لئے نوٹسز ارسال کئے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں جہانگیر ترین موجود ہیں لیکن نواز شریف کی جانب سے عدالت میں کوئی پیش نہیں ہوا۔ کل کےلئےنوازشریف کو بھی نوٹس جاری کریں کیوں نہ تمام متاثرہ افراد کو عوامی نوٹس دے دیں۔
جس پر وکیل بابراعوان نے عدالت سے درخواست کی کہ اٹارنی جنرل کو بھی عدالتی معاونت کیلئے نوٹس دیں۔ البتہ عدالت نے سینیئروکیل منیراےملک اور علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کر دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ نااہل ہونے والوں کی دوکیٹگریز ہیں، ایک کیٹگری کسی قانون سےنااہل ہونےکی ہے، دوسری کیٹگری آئین کےتحت نااہل ہونے کی ہے۔
جس پر بابراعوان نے کہا کہ عدالت کوحدیبیہ فیصلے کابھی جائزہ لیناہوگا، فیصلے میں کہا گیا طویل عرصے تک سزانہ ہونا بری کے مترادف ہے، حدیبیہ کیس کا فیصلہ کچھ کہتاہے اور قانون کچھ اور، برے کردار پر بھی شخص نااہل ہوسکتاہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ امیدوارکی اہلیت مخالف امیدوار چیلنج کرےگا، ریٹرننگ آفیسرکردار کاتعین کیسے کرے گا،جسٹس شیخ آر او کے پاس تعین کیلئے عدالتی فیصلہ یا مواد ہونا چاہئے۔
بابراعوان نے کہا کہ کسی قانون میں اچھے برے کردار کی کوئی تعریف نہیں، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیانظریہ پاکستان کی مخالفت کرنیوالے بھی نااہل ہوسکتے ہیں۔
وکیل بابراعوان نے دلائل میں کہا کہ پاکستان بننےکےبعدنظریہ پاکستان کی مخالفت کرنیوالےنااہل ہونےچاہئیں، کوئی کھڑا ہو کر کہتا ہے فاٹا آزاد کیوں نہیں ہوتا، کوئی کہہ رہاہے کے پی کے پاکستان کاحصہ نہیں، ایسے لوگ نااہلی کے مستحق ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ اورآئین کا پابند ہے، بالادستی صرف آئین کی ہے، جس پر بابراعوان نے کہا کہ آرٹیکل62ون ایف پر فیصلے سے پوری قوم نے متاثر ہونا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ ہم لوگوں کے حقوق کاتحفظ چاہتے ہیں، چاہتے ہیں متاثرین عدالت میں آکرفریق بنیں، اسی لیے نواز شریف ، جہانگیر ترین کو بھی نوٹس جاری کیا، کوئی آئے نہ آئے ان کی مرضی ہے۔
بابراعوان نے چیف جسٹس سے مکالمہ میں کہا کہ ایساپہلی مرتبہ ہورہاہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ بہت ساری چیزیں پہلی مرتبہ ہو رہی ہیں، بابر اعوان نے کہا کہ ایک بندے کا نام آئین میں ڈال دیاگیااس کونکالنے کیلئے27سال لگ گئے۔
چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمہ میں کہا کہ وہ ضیاالحق تھے۔
جسٹس شیخ عظمت کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 62ون ایف کی ڈیکلریشن پرآراوفیصلہ کرسکتاہے، ڈیکلریشن نہ ہواتوآراوکاغذات پرفیصلہ کرےگا، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئین میں کوئی چیز نہیں توتشریح کرسکتے ہیں یاپارلیمنٹ کو دیکھنا ہوگا۔
بابر اعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین سےقومہ یافل سٹاپ نکالنےکیلئےبھی فورم پارلیمنٹ ہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ڈھائی بجے لارجر بینچ دوبارہ بیٹھے گا اور رات تک چلے گا، عدالت کی رفتار اب بہت تیز ہوگئی ہے۔
وکیل نے کہا کہ میری بابا رحمتے میں ملاقات کراددیں، بابےسےوقت مانگوگا، چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ بابا رحمت آپ کی ماں ہے، یہ ماں دنیا میں بھی دعائیں دیتی ہےاور اوپر جاکربھی، آپ کو جتنا وقت چا ہئے دینگے چاہے رات9بجے تک دلائل پڑیں۔
بابر اعوان نے عدالت سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی اور کہا کہ کئی فیصلے لارجر بینچ نے دئیے ہوئے ہیں۔
بعد ازاں آرٹیکل 62ون کی تشریح سےمتعلق کیس کی سماعت ڈھائی بجے تک ملتوی کردی گئی۔
آرٹیکل62ون کی تشریح سےمتعلق کیس، عوامی نوٹس جاری
کیس سے متعلق سپریم کورٹ نے عوامی نوٹس جاری کیا، اعلامیہ میں کہا گیا کہ کسی سیاسی جماعت کاسربراہ یاووٹرمتاثرہےتورجوع کرسکتاہے، متاثرہ شخص کی جانب سےرجوع نہ کرنےپریکطرفہ فیصلہ دیاجائیگا۔
آرٹیکل 62ون ایف کی تشریح سےمتعلق کیس کی دوبارہ سماعت شروع
آئین کےآرٹیکل62ون ایف کی تشریح سے متعلق کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بابر اعوان نے صادق اور امین کے معاملے پر احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے دلائل میں کہا کہ قتل کا معاملہ قاتل اور مقتول کےدرمیان ہوتا ہے، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل62ون ایف کے تحت نااہلی سب سےمنفرد ہے۔
وکیل بابر اعوان نے کہا کہ قوم آرٹیکل62ون ایف کوسنجیدگی سے لیتی ہے، سپاہی کیلئے5 فٹ 8 انچ قدکی اہلیت ہوتی ہے، عام ملازم کیلئے شوکاز اور انکوائری سمیت کئی طریقے واضح ہیں، منتخب نمائندے بھی ریاست چلانے کیلئے اللہ کے بعدبااختیار ہوتےہیں، منتخب نمائندوں کے لئے بھی معیار ہونا چاہئے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بطور پارٹی ورکرآپ کیا کہتے ہیں نااہلی تاحیات ہونی چاہئے، جواب میں بابر اعوان کا کہنا تھا کہ نااہلی تاحیات ہونی چاہئے، تاحیات نااہلی 4قسم کے مقدمات میں ہونی چاہئے، منشیات ،بچوں سے جنسی زیادتی کے ملزمان تاحیات نااہل ہونے چاہئیں، دہشتگردی، منی لانڈرنگ، کرپشن پربھی تاحیات نااہل ہوناچاہئے، چاروں جرائم میں ملوث افراد کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے، آئین میں جہاں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں وہاں تاحیات ہوگی۔
بابراعوان نے اپنے دلائل میں کہا کہ آئین میں جہاں نااہلی کی مدت کاتعین نہیں وہاں تاحیات ہوگی، جس پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انسان کواپنی غلطی پرزندگی میں کبھی بھی پچھتاواہوسکتاہے، کیاان غلطیوں کاکبھی مداوانہیں ہوسکتا، اسلامی تعلیمات میں غلطیوں کی معافی کابھی تصورہے۔
وکیل بابراعوان کا کہنا تھا کہ ہرجرم کی اپنی نوعیت ہوتی ہے، جس پر جسٹس عظمت سعید جرم کی سزایاجزاقانون کےمطابق ہوتی ہے، کیازیادتی کاملزم معافی مانگے تو معاف کر دینگے؟ گناہوں کی معافی اللہ تعالی سےملتی ہے، جرم ریاست کےخلاف ہوتا ہے۔
بابراعوان نے دلائل میں کہا کہ آرٹیکل62 ایف ون کوکسی اورسےنہیں ملایاجاسکتا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیاآپ یہ کہنا چاہتےہیں 62ون ایف کے تحت سزاالگ ہے؟ جس پر بابر اعوان نے کہا کہ آرٹیکل62ون ایف کےتحت نااہلی تاحیات ہے، جج کوہٹانے کاطریقہ کارطےہے، نوکری سے نکالا گیا سول جج بھی واپس نہیں آسکتا، یہ ملکی تاریخ کاسب سےبڑامقدمہ ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بطورسیاستدان بتائیں آرٹیکل62 ون ایف کےتحت نااہلی کی معیادکیاہے؟ جواب میں بابر اعوان نے کہا کہ یہ بیان صرف ایڈووکیٹ بابراعوان کی حیثیت سے دوں گا، آرٹیکل62ون ایف کےتحت نااہل تاحیات ہے، دہشتگردی، منشیات اورکرپشن کے مقدمات ہوتے ہیں، جس نے اربوں روپے بنائے اسے نہیں چھوڑاجانا چاہیے، پھر ورنہ کسی کویہ یقین ہو جائیگا 3یا5سال بعد واپس آجاؤں گا۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس میں کہا کہ صرف نااہلی کی مدت تک باتوں کومحدودرکھیں، بابر اعوان نے سپریم کورٹ میں سماعت کےدوران قرآنی آیات کاحوالہ دیا اور کہا کہ آرٹیکل62ون ایف کےتحت آئینی نتائج کاذکرہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایساوکیل جوآرٹیکل62ون ایف کےتحت دلیل سےمتفق ہو، کمرہ عدالت میں کوئی وکیل کھڑانہ ہوا۔
چیف جسٹس نے جہانگیرترین کےوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیاآپ بھی تاحیات نااہلی کےمخالف ہیں؟ وکیل جہانگیرترین نے جواب میں کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کےتحت تاحیات نااہلی کوسپورٹ نہیں کرتا۔
ایڈووکیٹ افتخارگیلانی کے دلائل
بابراعوان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈووکیٹ افتخارگیلانی نے دلائل شروع کئے ، افتخارگیلانی نے کہا کہ 1985 کی اسمبلی پرآرٹیکل62 ون ایف کی منظوری کادباؤتھا، 62 ون ایف پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں1979 میں آیا، صدارتی آرڈرکےتحت62 ون ایف کوآئین میں شامل کیاگیا، 1977 میں90دنوں میں الیکشن کاکہاگیالیکن مارشل لاتھا، 8 ویں ترمیم کےوقت پارلیمنٹ کےہاتھ پاؤں بندھےتھے، 8 ویں ترمیم میں آرٹیکل62 ون ایف کودرست قراردیاگیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ 18 ویں ترمیم میں توہاتھ پاؤں بندھےہوئےنہیں تھے، جس پر ایڈووکیٹ افتخارگیلانی نے کہا کہ ہمیں ادھر ادھرنہیں جاناچاہئے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ 18ویں ترمیم جمہوریت کے لیے اچھی تھی، آرٹیکل62ون ایف کوپارلیمنٹ نے نہیں چھیڑا تو آئین سپریم ہے ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا 18 ویں ترمیم62 ون ایف کوتبدیل کرنے کیلئے موقع تھی، جو کام پارلیمنٹ خود نہیں کرنا چاہتی وہ ہم سے کرانا چاہتے ہیں، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ 62 ون ایف کوتبدیل کرنے کیلئے پارلیمنٹ کا اپنا حوصلہ نہیں پڑتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نےتعین کرناہے62 ون ایف کےتحت نااہلی کی معیاد کیاہے، جس پر ایڈووکیٹ افتخارگیلانی نے کہا کہ آرٹیکل ون ایف کےتحت یہ کہنا وقت مقررنہیں فضول ہے، اسلام نے معافی کا کہا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ معافی تو اللہ پاک دیتاہے، افتخارگیلانی کا کہنا تھا کہ آپ اللہ پاک سے اوپر تو نہیں جاسکتے۔
جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کسی کونااہل کردیاجائےتونئےالیکشن میں وہ کلیئرکیسے ہوگا،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا 5 سال بعد عدالت کا فیصلہ ختم ہوجائے گا۔
ثمینہ خاورحیات کے وکیل طارق محمود کے دلائل شروع
ثمینہ خاورحیات کے وکیل طارق محمود نے دلائل شروع کئے اور کہا کہ کیس تعلیمی معلومات،اثاثوں کی تفصیلات سےمتعلق ہے، جسٹس عظمت نے سوال کیا آپ یہ تونہیں کہہ رہے کاغذات نامزدگی میں جھوٹ کی اجازت ہے؟
جسٹس اعجاز نے بھی سوال کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں غلط بیانی، بد دیانتی کے زمرےمیں نہیں آتی؟ کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کرناجرم ہے، کاغذات نامزدگی میں حلف دیا جاتا ہے، معلومات درست ہیں، کاغذات مسترد ہوں تو کیا جھوٹےحلف نامے کا معاملہ ختم ہوجائیگا
طارق محمود نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن ٹریبونل اس بات کاتعین کرسکتاہے، آراوآرٹیکل 62ون ایف کےاطلاق کاتعین نہیں کرسکتا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیشہ جعلی ڈگریوں کےکیسز کیوں لے کر آتےہیں۔
وکیل طارق محمود نے کہا کہ جیسا وکیل ہوں ویسےکیس ہی لاؤں گا،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ طارق محمودصاحب ایسانہ کریں، جس پر طارق محمود کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نےثمینہ خاورحیات کی ڈگری کودرست قراردیا، غلط خبرپرسپریم کورٹ نےنوٹس لیا، غلط خبر پر عدالت نے تمام اراکین کوڈگریاں جمع کرانےکاحکم دیا۔
طارق محمود نے مزید کہا کہ آرٹیکل63میں سنگین جرم کی سزاکی مدت کاتعین موجودہے، ایک مرتبہ آرٹیکل62ون ایف پرسزابھگت لی دوسری مرتبہ الیکشن لڑنےکی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے دوست جج صاحب کی صحت کا ایشوہے، جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگرمجھے مارناچاہتےہیں تووکلادلائل جاری رکھیں۔
جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ اصل سوال نااہلی کی مدت کاہے، ہمارےعوامی نوٹس کومیڈیاباربارچلائے۔
بعد ازاں آرٹیکل 62ون ایف سےمتعلق کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔