لاہور : پرائیویٹ میڈکل کالجز کی فیسوں کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پرائیویٹ میڈیکل کالجزکی فیس، سہولتوں سےمتعلق سماعت کی، چیف جسٹس آف پاکستان نے میڈیکل کالجز اسٹرکچر کے حوالے سے رپورٹ طلب کر لی۔
چیف جسٹس کہا کہ بتایاجائےمیڈیکل کالجزمیں کیاسہولتیں دی جاتی ہیں، دیکھنا چاہتے ہیں میڈیکل کالجز میں کیا سہولتیں ہیں، بھائی پھیروکریسنٹ کالج کادورہ کرلیتے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ بہت سارے ایشوز کو اکٹھا ٹیک اپ کیا، اب ہم ہر معاملے کو علیحدہ علیحدہ دیکھیں گے، پی ایم ڈی سی کواپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ کسی میڈیکل کالج کو اس وقت تک بند نہیں کیا جائے گا جب تک مجبوری نہ بن جائے، تعلیم کاروبار ہو سکتا ہے مگر میڈیکل کی تعلیم پر اتنی فیسیں نہ لگائی جائیں کہ لوگوں کی جیبیں ہی کٹ جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے ڈاکٹرز آرہے ہیں جنہیں بلڈپریشرچیک کرنانہیں آتا، کل 5بچے مرگئے،ان کا ذمہ دارکون ہے، انکوائری ہوگی اور آخر میں سارا ملبہ دھوپ پر ڈالا جائے گا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے حکم دیا کہ تمام میڈیکل کالجز کے اکاؤنٹس کا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے آڈٹ کروائیں جبکہ سیالکوٹ میڈیکل کالج کو فارن سٹوڈنٹس کوٹے کی مد میں لی گئی فیس واپس کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ ہسپتالوں اور میڈیکل کالجز میں کیا سہولیات دی جا رہی ہیں، ان کا خود جائزہ لوں گا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے قرار دیا لوگ کہتے ہیں کہ بابا رحمتا ایسے ہی لگا رہتا ہے مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں جو مرضی آئے تنقید کرے، عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتا رہوں گا۔
انہوں نے کہا کہ آج واضح کرتا ہوں کہ بابا رحمتا کا تصور کہاں سے لیا یہ خیال اشفاق احمد سے لیا اور بابا رحمتا ایک ایسا انسان ہے جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
سماعت کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس اعجاز الاحسن کے ہمراہ سروسز ہسپتال اور پی آئی سی کا دورہ بھی کیا۔