لندن : برطانوی حکام نے مشرقی لندن میں حالیہ دنوں ہونے والے فائرنگ اور چاقو زنی کے واقعات کے پیش نظرمیٹروپولیٹن پولیس کے مزید 300 افسران کو مذکورہ علاقے میں تعینات کردیا گیا تاکہ جرائم پر قابو پایا جاسکے۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے مشرقی حصّے میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران فائرنگ اور چاقو زنی کی متعدد وارداتوں میں 6 شہریوں کے قتل عام کے بعد برطانوی حکام نے مذکورہ علاقے میں لندن پولیس کے مزید 300 پولیس افسران پر مشتمل دستے کو تعینات کر دیا گیا۔
لندن کی کمشنر کیرسیڈا ڈک کا کہنا تھا کہ مزید پولیس کی تعیناتی کا مقصد یہ نہیں کہ ہمارے اہلکاروں نے لندن کی سڑکوں پر اپنا کنٹرول کھویا نہیں ہے بلکہ تحقیقات میں بہتری کے لیے بلایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شرپسندانہ کارروائیوں کی تحقیقات میں پیش رفت ہوئی ہے، جس میں پولیس اہلکاروں نے 13 سال سے 16 سال کی عمر کے تین بچوں کو 13 سالہ بچے پر قاتلانہ حملے کے شبے میں گرفتار کیا ہے۔
مشرقی لندن کے علاقے نیوہیم میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب میں شدت پسندوں کے حملے میں زخمی ہونے والا نوجوان نازک حالت میں اسپتال میں داخل ہے۔
برطانیہ کے دفتر خارجہ نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ میٹروپولیٹن پولیس شہریوں پر تشدد کرنے والے شرپسند عناصر اور ممنوعہ ہتھیاروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
لندن پولیس کی کمنشنر کا کہنا تھا کہ میٹرو پولیٹن پولیس نے قتل کے 55 مقدمات کی تحقیق کا آغاز کیا ہے لہذا برطانوی عوام متاثرہ افراد کو انصاف دلانے کے لیے پولیس کی مدد کرے۔
مشرقی لندن میں چاقو زنی کی 3 وارداتیں‘ 6 افراد زخمی
ان کا کہنا تھا کہ 17 سالہ لڑکی تانیشا اور 16 سالہ امان شکور کو فائرنگ کرکے ہلاک کرنے کے الزام میں 30 سالہ شخص کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ 16 مارچ کو برطانیہ میں خواتین گینگ کے سرعام تشدد سے شدید زخمی ہونے والی مسلمان طالبہ مریم مصطفیٰ جان کی بازی ہار گئی تھی۔ جبکہ ایک اور حملے میں 20 سالہ نوجوان کو چاقو کے وار سے قتل کردیا گیا تھا۔
مشرقی لندن میں نوجوان چاقو کےوارسے قتل
واضح رہے کہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن نے جرائم کی شرح میں امریکی شہر نیویارک کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، برطانوی میڈیا کے مطابق نوجوان گینگ کلچر کا شکار ہورہے ہیں جس کئ باعث لندن میں رواں سال چاقو زنی کی وارداتوں میں اب تک 50 افراد قتل ہوچکے ہیں۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔