لندن: برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ لمبی دم والے جنگلی بندروں نے انسانوں کی ایک اور عادت کو اپناتے ہوئے گری والے میوے یا پھر ناریل توڑنے کے لیے اوزار کا استعمال شروع کردیا۔
تفصیلات کے مطابق برطانیہ اور تھائی لینڈ کے سائنس دانوں نے تحقیق کی جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ’مکاک‘ یعنی لمبی دم والے بندروں کی نسل سمندری بادام اور ناریل توڑنے کے لیے پتھروں کو بطور اوزار انسانوں کی طرح استعمال کرنے لگے ہیں۔
ماہرین کے مطابق لمبی دم والے بند گری والے میوؤں کے بیرونی چھلکوں کو تقریباً دو کلو وزنی پتھر کی مدد سے توڑ کر اسے کھاتے ہیں جبکہ نوکیلے یا تیز دھار پتھروں سے اسے کاٹ کر اندر موجود غذا کو قابل استعمال بناتے ہیں۔
سائنسی ماہرین کے مطابق اس سے قبل یہ بات عام تھی کہ انسانوں کے علاوہ صرف چیمپینزیز ہی اوزار کا استعمال کرتے ہیں تاہم اب جب بندروں کی خاص نسل پر مشاہدہ کیا گیا تو یہ انکشاف بھی سامنے آیا۔
تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانوں سے قبل صرف چیمپنزیز ہی خوراک حاصل کرنے کے لیے پتھر کواستعمال کرنے کی صلاحیت اور ہنر آزماتے تھے۔
یونیورسٹی آف لندن کے پروفیسر ٹوموس پروفیٹ کا کہنا ہے کہ ’بندروں کی اس عادت کے اپنانے سے ارتقاء کے عمل کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے جبکہ حالیہ مطالعے کی وجہ سے ہمارے علم میں بھی اضافہ ہوا‘۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صرف انسان یا اُس سے مشابہہ مخلوق ہی خوراک کو حاصل کرنے یا دیگر مقاصد کے لیے اوزار کا استعمال کرتے تھے۔
پروفیسر ٹوموس کا مزید کہنا تھا کہ ’جنگلی بندروں خصوصاً مکاک کی یہ عادت اس بات کی غمازی ہے کہ یہ انتہائی ذہین اور سمجھدار ہیں جو بالکل انسانوں کی طرح کسی بھی معاملے میں اپنا دماغ استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘۔
سائنسی ماہرین نے یہ بھی انکشاف کیا کہ مکاک جس جذیرے پر کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں وہاں سے پام آئل کے درخت کئی دہائی کے فاصلے پر تھے تاہم اب ان جنگلی بندروں نے چند ہی برسوں میں نہ صرف خوراک تک رسائی حاصل کرلی بلکہ اسے باقاعدہ کھانے کا طریقہ بھی سیکھ لیا ہے۔