تازہ ترین

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

دماغ کو دھوکہ دے کر شفایاب کرنے والا خطرناک زہر

کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شے بیکار نہیں ہوتی، ویسے تو خدا نے جانوروں کو خطرناک زہر اس لیے دیا ہے کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرسکیں اور دشمن کو مار گرائیں، لیکن خدا نے اپنی اشرف المخلوقات یعنی انسان کے لیے اس میں بھی فائدے رکھے ہیں۔

آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمیں دی جانے والی بہت سی دوائیں کسی نہ کسی جانور کے زہر سے تیار شدہ ہوتی ہیں۔ آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک اور دوا سے متعارف کروانے جارہے ہیں۔

اپنی سستی کے لیے مشہور جانور گھونگھے کا زہر دنیا کے خطناک ترین زہروں میں سے ایک ہے، تاہم اس سے ان مریضوں کے لیے ایسی درد کش دوا پرایالٹ بنائی جاتی ہے جو اپنے مرض کے آگے بالکل بے بس ہوچکے ہوں اور کوئی دوا ان پر اثر نہ کرے۔

کسی بھی درد کو ختم کرنے کے لیے مورفین ایک عام درد کش دوا ہے تاہم اس کے سائیڈ افیکٹس بھی بہت زیادہ ہیں جبکہ یہ انسانی جسم کو اپنا عادی بنا لیتا ہے۔

اس کے برعکس گھونگھے کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا، مورفین سے 100 گنا زیادہ طاقتور اور نہایت کم خوارکوں میں اپنا اثر دکھانے والی ہے جبکہ جسم کو کسی قسم کا نقصان بھی نہیں پہنچاتی۔

یہ زہر آبی گھونگھے کی ایک نسل کے زہر میں موجود ایک جز سے تیار کی جاتی ہے۔ اس زہر کے اندر موجود زیادہ تر اجزا انسانی جسم کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔ صرف یہی ایک جز ایسا ہے جو فائدہ مند ہے۔

اس کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب گھونگھا مچھلیوں کو اپنا شکار بناتا ہے تو پہلے وہ ان پر اپنا زہر پھینکتا ہے جس سے وہ مفلوج ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد گھونگھا باآسانی انہیں کھا لیتا ہے۔

یہ دوا اس وقت دی جاتی ہے جب مورفین اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ اس دوا کو بہت شدید قسم کے درد کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔

پرایالٹ نامی اس دوا میں صرف ایک خرابی یہ ہے کہ یہ اس جھلی کو پار نہیں کرسکتی جو خون میں موجود مضر اجزا کو دماغ میں جانے سے روکتی ہے۔ اس جھلی کو بلڈ برین ممبرین کہا جاتا ہے۔

یہ جھلی خون میں موجود مضر اور زہریلے اجزا کو دماغ میں جانے سے روکتی ہے۔

پرایالٹ جب تک دماغ میں نہیں جاتی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ چنانچہ اس دوا کو براہ راست ریڑھ کی ہڈی کے اس حصے میں لگایا جاتا ہے جہاں سے یہ دماغ تک باآسانی پہنچ سکے۔

ماہرین نے اس طریقے کو آسان کرنے کے لیے ایک اور طریقہ ’ٹروجن ہارس کی حکمت عملی‘ کو بھی اپنایا ہے۔

یہ حکمت عملی ایک تاریخی واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ بارہویں صدی قبل مسیح میں جب ایک تاریخی شہر ٹرائے کی شہزادی ہیلن کو اغوا کرلیا گیا تھا تو اس کے لوگوں نے اسے بچانے کے لیے ایک بڑا سا لکڑی کا گھوڑا تیار کیا۔ اس گھوڑے کے اندر ہزاروں کی تعداد میں سپاہی موجود تھے۔

یہ گھوڑا دشمن بادشاہ کے لیے ایک تحفے کی صورت بھیجا گیا جسے قبول کر کے قلعے کے اندر لے آیا گیا۔ رات کی تاریکی میں گھوڑے کے دروازے کھلے اور اندر سے لاتعداد جنگجو سپاہیوں نے برآمد ہو کر جنگ شروع کردی اور اپنی شہزادی کو واپس چھڑا لے آئے۔

طب میں بھی یہ حکمت عملی استعمال کی جاتی ہے۔

مزید پڑھیں: بچھو کا زہر حاصل کرنے کے لیے مشین تیار

پرایالٹ کو دماغ تک پہنچانے کے لیے نینو کنٹینر نامی ننھے سے اجزا میں اس دوا کو ڈالا جاتا ہے۔ یہ ننھے اجزا ہر قسم کی جھلی کو پار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں چنانچہ یہ دماغ کی جھلی کے پار جا کر دوا کو دماغ کے اندر داخل کر دیتے ہیں۔

ماہرین اب اس پر کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس کو کیپسول کی شکل دی جائے تاکہ یہ عام دواؤں کی طرح کھایا جاسکے۔

Comments

- Advertisement -