لاہور : ریلوے خسارہ از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور خواجہ سعد رفیق کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا تاہم عدالت نے سابق وزیر ریلوےکو ایک ماہ میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کردی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ریلوے خسارے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی جس دوران سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے پر پیش ہوگئے۔
ریلوے خسارے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اور سابق وفاقی وزیر برائے ریلوے کے درمیان تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران خواجہ سعد رفیق سے استفسار کیا کہ آپ نے آڈٹ رپورٹ دیکھی؟ جس پر خواجہ سعد رفیق نے جواب دیا کہ ہم نے ریلوے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا، میں یہاں بے عزتی کرانے نہیں آیا۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ خواجہ صاحب کوئی آپ کی بے عزتی نہیں کررہا، ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ ہوتا ہے وہ کسی کی بے عزتی نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آج تو آپ گھر سے غصّے میں آئے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ایک ہزار صفحات کی آڈٹ رپورٹ پر کیسے جواب جمع کروائیں، وہ کوئی اکاؤنٹس افسر نہیں، مجھے بتائیں کہ کیا میرے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میں نے بدعنوانی کی یا کرپشن کی۔
سابق وزیر سعد رفیق نے کہا کہ ان کا الیکشن ہے انہیں جواب جمع کروانے کے لیے ایک ماہ کی مہلت دی جائے۔
خواجہ سعد رفیق نے جواب دیا کہ میں غصّے میں نہیں آیا، جواباً چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ سے جو پوچھا جارہا ہے، آپ وہ بتائیں۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میرے ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، میں شاباش لینے آتا ہوں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ جواب جمع کروائیں، پھر دیکھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وکیل کریں اور کسی کنسلٹنٹ سے مشورہ کر کے جواب دیں۔ بعد ازاں عدالت نے خواجہ سعد رفیق کو ایک ماہ میں جواب جمع کروانے کی مہلت دیتی ہے۔