جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

گجرات فسادات سے متعلق بھارتی فوجی جنرل کے چشم کشا انکشافات

اشتہار

حیرت انگیز

نئی دہلی: سابق بھارتی فوجی جنرل ضمیر الدین شاہ نے گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے حوالے سے چشم کشا انکشاف کر دیے۔

بھارتی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل (ر) کا کہنا تھا کہ ’احمد آباد جل رہا تھا اور ہم بے بسی سے اسے جلتا دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکے، فوج کو حکومت کی طرف سے 34 گھنٹوں تک گاڑیاں فراہم نہیں کی گئیں‘۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ’فسادات شروع ہونے کے بعد فوج کی نفری کو صورتحال قابو میں کرنے کے لیے راجسھتان سے بلایا گیا مگر  24 گھنٹے تک حکومت نے ائیرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی‘۔

- Advertisement -

جنرل (ر) ضمیر شاہ کا کہنا تھا کہ اگر ریاست بروقت ٹرانسپورٹ کا انتظام  کر کے ہمیں اجازت دیتی تو کم از کم 300 لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں مگر ایسا نہیں کیا گیا، اس واقعے کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: گجرات فسادات میں ستانوے مسلمانوں کی قاتلہ عدالت سے بری

ضمیر شاہ نے یہ تمام انکشاف اپنی کتاب ’دی سرکاری مسلمان‘ میں کیے، جس میں اُن کا مزید کہنا ہے کہ مقامی پولیس نے ہندو انتہاء پسندوں کا ساتھ دیا اور انہیں نشاندہی کر کے قتل کروایا، جہاں پولیس ملوث نہیں تھی وہاں مقامی تھانے کے اہلکار خاموش تماشائی بنے کھڑے تھے۔

سابق بھارتی فوجی کا کہنا ہے کہ ’میں سیدھا وزیراعلیٰ (مودی) کی رہائش گاہ پہنچا جہاں وزیر دفاع جارج فرنانڈز بھی موجود تھے، میں نے دونوں کو بتایا کہ ہمیں فساد پر قابو پانے کے لیے کن چیزوں کی ضرورت پڑے گی مگر ریاست نے انتظام نہ کیا اور 2 مارچ کو گاڑیاں فراہم کی گئیں جس کے بعد 48 گھنٹوں میں صورتحال کو قابو کرلیا‘۔

یاد رہے کہ بھارتی ریاست گجرات میں سن 2002 میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے تھے، اُس وقت وزیر اعلیٰ نریندر مودی تھے جو آج بھارت کے وزیر اعظم ہیں۔ گجرات میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 1 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں کثیر تعداد مسلمانوں کی تھی۔

لوک سبھا کی سب سے بڑی جماعت کانگریس اور دیگر حلقوں نے گجرات فسادات کا ذمہ دار مودی کو ٹھہرایا جبکہ اُن کی جانب سے متعدد بار یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ انتہاء پسند ہندوؤں کو مسلمانوں کے قتل عام کا فری لائسنس دے دیا گیا تھا۔

گجرات فسادات کا پس منظر 

بھارت کی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں اُس وقت ہنگامے پھوٹ پڑے تھے کہ جب گودھرا سے آنے والی ٹرین کو آگ لگا دی گئی تھی، اس میں 59 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہندو انتہاء پسندوں نے حادثے کا الزام مسلمانوں پر لگایا اور پھر اُن کا کھلا قتل عام کیا جسے انسانی حقوق کی تنظیموں نے مسلمانوں کی نسل کشی قرار دیا تھا۔

گجرات فسادات میں ہندو انتہاء پسندوں نے 2500 سے زائد مسلمانوں کو بے رحمانہ قتل یا انہیں زندہ جلا دیا تھا جبکہ متعدد خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی سامنے آئے تھے، اس حادثے میں ہزاروں مسلمان بے گھر بھی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: چوبیس سالہ نوجوان گجرات کے لیے امید کی نئی کرن، مودی پریشان

فسادات کو روکنے کے لیے مقامی پولیس نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا اور نہ ہی اُس وقت کے وزیر اعلیٰ مودی نے اس کو روکنے کے کوئی احکامات جاری کیے تھے، بلواسطہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ اس قتل و غارت کے سرپرست قرار پائے تھے۔

بعد ازاں گجرات کی ہائی کورٹ میں اس سانحے کے کیس کی سماعت ہوئی جس کا فیصلہ عدالت نے رواں برس اپریل میں سناتے ہوئے بی جے پی کے سابق وزیر مایا کوڈاتی پر عائد ہونے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہیں بری کردیا تھا۔

قبل ازیں مجسٹریٹ کی عدالت نے کوڈانی کو 28 برس قید کی سزا سنائی تھی جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کردیا تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں