واشنگٹن: امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خاشقجی قتل کے وقت اسکواڈ اور اپنے مشیر کو 11 میسجز کیے۔
تفصیلات کے مطابق دو اکتوبر کو ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں قتل ہونے والے امریکی اخبار سے وابستہ صحافی کی تحقیقات کے حوالے سے خفیہ ادارے نے دوسری مرتبہ سعودی عہد پر الزام عائد کیا۔
سی آئی اے نے ترک حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی آڈیو ریکارڈنگ کے بعد سعودی صحافی کے قتل کی تحقیقات کا آغاز کیا اور ٹرمپ کو بریفنگ دینے کے لیے رپورٹ بھی مرتب کرلی۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں، برطانوی وزیراعظم
یہ پڑھیں: گروپ 20 اجلاس: ہزاروں افراد کا جی 20 سربراہوں کے خلاف احتجاج
امریکی خفیہ ادارے کی جانب سے یہ دعویٰ اُس وقت سامنے آیا جب ارجنٹینا کے دارالحکومت میں جی ٹوئنٹی سربراہی اجلاس جاری ہے جس میں مختلف ممالک کے سربراہان شرکت کررہے ہیں۔
امریکی خفیہ ادارے کی سربراہ جینا گوسپل نے نے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے وقت اپنے مشیر اور ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ کو 11 پیغامات موبائل سے ارسال کیے۔
ابتداء میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد ملوث ہیں مگر اس بات کو سعودی حکومت اور امریکی صدر نے خود بھی مسترد کیا۔
یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل میں محمد بن سلمان ملوث نہیں، امریکی وزیر خارجہ
ترک حکومت کی جانب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ قتل کی تحقیقات ترکی میں ہی کروائی جائیں البتہ سعودی حکام نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے تحقیقات اپنے ہی ملک میں کرانے کا اعلان کیا۔
قبل ازیں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر محمد بن سلمان پر عائد ہونے والے الزام کی سختی سے تردید کرچکے ہیں اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اس جرم میں ملوث افراد کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ بھی جی ٹوئنٹی اجلاس میں شریک ہیں البتہ انہوں نے جمال خاشقجی سے متعلق گفتگو پر گریز کیا جبکہ فرانس کی جانب سے اسی اجلاس میں عالمی تحقیقات کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
اسے بھی پڑھیں: جمال خاشقجی کا قتل، امریکا کے بعد برطانیہ نے بھی قاتلوں پر سفری پابندی عائد کردی
امریکی جریدے کے مطابق سی آئی اے نے اب تک کی جانے والی تحقیق کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا کہ ’قتل میں ملوث 15 رکنی اسکواڈ کی سربراہی سعود القحطانی کررہے تھے ‘۔
سی آئی اے نے الزام عائد کیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے اگست 2017 میں سعود القحطانی سے گفتگو کے دوران کسی شخص کو سعودی عرب واپس لانے سے متعلق بات کی تھی، ممکنہ طور پر وہ اشارہ جمال خاشقجی کی طرف ہی تھا۔