اردو ادب کے عظیم ادیب اور سفر نامہ نگار مستنصر حسین تارڑ آج اپنی 80 ویں سالگرہ منا رہے ہیں، آپ اب تک پچاس سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت سفر نامے اور ناول نگاری ہے۔ اس کے علاوہ ڈراما نگاری، افسانہ نگاری اور فن اداکاری سے بھی وابستہ رہے۔ مستنصر حسین تارڑ کا شمار پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیبوں میں ہوتا ہے۔
مستنصر حسین تارڑ 1 مارچ 1939ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ بیڈن روڈ پر واقع لکشمی مینشن میں اُن کا بچپن گزرا جہاں ان کے پڑوس میں سعادت حسن منٹو رہتے تھے۔ اُنھوں نے مشن ہائی اسکول، رنگ محل اور مسلم ماڈل ہائی اسکول میں تعلیم حاصل ک۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ ایف اے کے بعد برطانیہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا رخ کیا، جہاں فلم، تھیٹر اور ادب کو نئے زاویے سے سمجھنے، پرکھنے اور برتنے کا موقع ملا۔ پانچ برس وہاں گزارے اور ٹیکسٹائل انجنئیرنگ کی تعلیم حاصل کرکے وطن واپس لوٹے۔
انہوں نے ٹی وی ڈراموں میں بھی کام کیا ہے اورمتعدد سفر بھی کیے ہیں اور 20 سے زائد سفر نامے تحریر کیے ہیں۔باقاعدگی سے کالم بھی لکھا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ناول کے حوالے سے بھی ان کا نام اہم ہے۔ انہوں نے بہاؤ، راکھ، خس و خاشاک زمانے ، اے غزال شب اور منطق الطیرجیسے شہرہ آفاق ناول تخلیق کیے۔
ناول دھماکا نہیں کرتا، بلکہ قاری میں سرایت کر جاتا ہے: مستنصر حسین تارڑ
کبھی شہرت کو سنجیدہ نہیں لیا، ممتاز ادیب مستنصر حسین تارڑ کا خصوصی انٹرویو
ان کا اپنی تخلیقات سے متعلق کہنا ت ہے کہ ’’بہاؤ‘‘ جیسا ناول اب خود بھی نہیں لکھ سکتا، اپنا آخری ناول ’’منطق الطیر جدید‘‘ لکھتے ہوئے اسی تخلیق تجربے سے گزرا، جس سے بہاؤ کے وقت گزرا تھا۔
ناول اور سفرناموں کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ نے ڈرامے بھی تحریر کیے جن میں قابل ذکر شہپر، ہزاروں راستے، پرندے ،سورج کے ساتھ ساتھ، ایک حقیقت ایک افسانہ، کیلاش اور فریب شامل ہیں۔
اس کے علاوہ آپ نے ٹی وی پروگراموں کی میزبانی بھی کرتے رہے ہیں۔ پی ٹی وی نے جب پہلی مرتبہ 1988ء میں صبح کی نشریات صبح بخیر کے نام سے شروع کیں تو مستنصر حسین تارڑ نے ان نشریات کی کئی سال تک میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔ ریڈیو پروگرام کی بھی میزبانی کی ۔
مستنصر حسین تارڑ کو متعدد انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے جن میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، پی ٹی وی ایوارڈ اورلائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سرفہرست ہیں ۔