افریقی ملک کینیا میں طویل ترین دانت رکھنے والی 60 سالہ ہتھنی کی آخری تصاویر نے لوگوں کو دم بخود کردیا۔
کینیا کے میدانوں میں گھومتی یہ ہتھنی جسے ’ایف_ایم یو 1‘ کا نام دیا گیا، اس قدر بڑے دانت رکھتی تھی کہ یہ زمین کو چھوتے تھے، اور جب یہ چلتی تھی تو اس کے دانت زمین کو کھرچتے ہوئے آگے بڑھتے تھے۔
برطانوی فوٹو گرافر ول بررڈ لوکس نے اس کی مرنے سے قبل آخری تصاویر کھینچیں جنہوں نے لوگوں کو حیران کردیا۔
ول کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے اس عظیم جانور کو نہ دیکھتے تو کبھی اس کے وجود پر یقین نہ کرتے۔ ’اگر ہاتھیوں کی کوئی ملکہ ہوتی، تو یقیناً وہ یہی ہتھنی ہوتی‘۔
اس طرح کے بڑے اور مکمل دانت رکھنے والے ہاتھی افریقہ میں چند ہی پائے جاتے ہیں جنہیں ’سپر ٹسکرز‘ کہا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اکثر ہاتھی شکاریوں کے ہاتھوں اپنے دانتوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔
اس ہتھنی کی موت کے بعد اب افریقہ میں بڑے دانتوں والے صرف 30 ہاتھی رہ گئے ہیں، تاہم یہ بھی شکاریوں کی نظر میں ہیں۔
ول کا کہنا ہے کہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ ہتھنی کسی شکاری پھندے، گولی یا زہریلے تیر کا شکار نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت مرگئی۔ اب سے 2 سال قبل ایسے ہی ایک 50 سالہ سپر ٹسکر ہاتھی کو شکاریوں نے زہریلے تیر کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
خیال رہے کہ کچھ دن قبل کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات بشمول ہاتھی کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا کے مطابق اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔
عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔
تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔