ہماری زمین پر موجود ہر جاندار نہایت اہمیت کا حامل ہے، زمین پر موجود تمام جاندار آپس میں جڑے ہوئے ہیں لہٰذا کسی ایک جاندار کی نسل کو نقصان پہنچنے یا اس کے معدوم ہوجانے سے زمین پر موجود تمام اقسام کی زندگی خطرے میں آسکتی ہے۔
انہی میں سے ایک اہم جاندار شہد کی مکھی ہے، خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہمارے اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔
ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔
شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔
تاہم نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔
ان مکھیوں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟
معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو کے مطابق ہمارا ایک معمولی سا عمل ان مکھیوں کو بچا سکتا ہے۔ سر ایٹنبرو کو ماحولیات کے شعبے میں کام اور تحقیق کے حوالے سے شاہی خاندان میں بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے اور کئی بار ملکہ ان کے کام کو سراہ چکی ہیں۔
ان کے مطابق شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔
ایسے میں اگر ہم اپنے گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر رکھ دیں گے تو یہ محلول ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے۔
سر ایٹنبرو کے مطابق اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے، چنانچہ یہ معمولی سا قدم نہ صرف ان مکھیوں بلکہ ہماری اپنی بقا کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔
نوٹ: بعد ازاں سامنے آنے والی رپورٹس سے علم ہوا کہ سر ڈیوڈ ایٹنبرو کے جس اکاؤنٹ سے یہ معلومات شیئر کی گئیں، وہ جعلی اکاؤنٹ تھا۔ سر ایٹنبرو نے ایسی کوئی بھی تجویز دینے کی تردید کی۔