اشتہار

انڈونیشیا کا آسمان سرخ کیوں ہوگیا؟

اشتہار

حیرت انگیز

جکارتا: گزشتہ ہفتے کے اختتام پر انڈونیشیا کے جنگلات میں وسیع پیمانے پر لگنے والی آگ کی وجہ سے ملک کے ایک صوبے کا افق سرخی مائل ہوگیا، شہریوں کا کہنا ہے کہ سرخ دھند کے سبب مختلف انفیکشن ہورہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ہر سال فصلوں کے بعد زمینوں کو تازہ دم کرنے اور جراثیموں کو مارنے کے لیے کسان نباتا ت کو آگ لگاتے ہیں اور یہ آگ بے قابو ہو کر جنوب مشرقی ایشیا کے جنگلا ت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

ماہرین ِ موسمیات کے مطابق کہ یہ عمل سورج کی شعاؤں اور آگ سے پیدا ہونے والے ذرات سے ہوتا ہے ۔

- Advertisement -

انڈونیشیا کے صوبے جامبی کے میکار ساری گاؤں سے تعلق رکھنے والی ایکا وولانداری نے ہفتے کی دوپہر کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی ، جو چند ہی گھنٹوں میں وائرل ہوگئیں، تصاویر میں آسمان انتہائی سرخ نظر آرہا ہے۔انھوں نے کہا: ’اس روز دھند بہت ہی زیادہ تھی۔ فوٹو گرافی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تصاویر اصلی ہیں۔دوسری جانب ٹویٹر پر ایک اور صارف، زُونی شوفی یاتُن نسا، نے ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: ’یہ مریخ نہیں ہے۔ ہم انسانوں کو صاف ہوا چاہئے، دھواں نہیں۔‘

اس حوالے سے انڈونیشیا کے محکمۂ موسمیات نے مصنوعی سیارے سے لی گئی تصاویر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں کئی ایسے مقامات نظر آتے ہیں جہاں سے گاڑھا دھواں نکلتے دیکھا جا سکتا ہے۔

سنگاپور یونیورسٹی میں سماجی علوم کے پروفیسر کوٹائے یونگ کے مطابق یہ قدرتی عمل ’ ذرات سے روشنی کا پھیلنا‘ کہلاتا ہے جس میں دھند کے دوران مخصوص قسم کے ذرات فضا میں معلق ہو جاتے ہیں۔ان ذرات کی جسامت 1 مائکرو میٹر یا اس سے کم ہوتی ہے۔ اور جب دھواں آمیز دھند چھا جاتی ہے تو چھوٹے ذرات روشنی کو سرخی مائل کر دیتے ہیں۔

ان کے بقول چونکہ تصاویر دوپہر کے وقت لی گئی ہیں لہذا ممکن ہے کہ یہ زیادہ سرخ نظر آتی ہوں۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر سورج آپ کے سر پر ہو اور آپ آسمان کی جانب دیکھیں تو یہ زیادہ سرخ نظر آئے گا۔‘

پروفیسر کوہ کا کہنا ہے کہ اس عمل کا اثر فضا کے درجۂ حرارت پر نہیں پڑتا۔انڈونیشیا اور کسی حد تک ملائشیا میں دھند کا سبب کھلے مقامات پر آگ ہے جو بالعموم جولائی سے اکتوبر کے زمانے میں موسم خشک ہونے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔

انڈونیشیا میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ اس سال کے آٹھ ماہ کے دوران 328,724 ہیکٹر جل کر خاکستر ہو چکے ہیں۔

اس کی ذمہ داری بڑی کمپنیوں اور چھوٹے کاشتکاروں پر یکساں عائد ہوتی ہے جو پام آئل اور کاغد اور گودے کے پودوں کی کاشت کے لیے زمین صاف کرنے کی خاطر نباتات کو آگ لگا دیتے ہیں۔اس طرح پودوں میں امراض کا باعث بننے والے جراثیم بھی مر جاتے ہیں۔البتہ یہ آگ قابو سے باہر ہوکر محفوظ جنگلات سمیت وسیع علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

اگرچہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے مگر بعض لوگوں کے بقول بدعنوانی کی وجہ سے قوانین کا مکمل اطلاق ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں