تازہ ترین

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج روانہ ہوگا

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

اسرار الحق مجاز اور مولانا حالی کی شگفتہ بیانی

سعادت مند

مشہور شاعر اسرار الحق مجاز بلا کے مے نوش تھے۔ ایک روز کسی صاحب نے ان سے پوچھ لیا۔
’’کیوں صاحب! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر اعتراض نہیں کرتے؟‘‘
مجاز جیسے زرخیز ذہن کے مالک اور خوب صورت شاعر نے اس سوال پر ان صاحب کو ایک نظر دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے مختصر جواب دیا۔

‘‘جی نہیں۔’’ پوچھنے والا ان کے اس مختصر جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور اس کی وجہ جاننا چاہی۔ اس کے اصرار پر مجاز نے جو کہا وہ ان کی حاضر دماغی اور ظرافت کا ثبوت ہے۔
‘‘دیکھیے، یوں تو لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے، مگر آپ سمجھ لیں کہ میرے والدین سعادت مند ہیں۔’’

تن ہا

یہ اردو کے ایک لکھاری کی شادی کی تقریب کا واقعہ ہے جو اپنے وقت کی قدرآور شخصیات کے نہایت شستہ مزاح اور شگفتہ بیانی کی ایک مثال ہے۔

محمد یحییٰ تنہا کی شادی تھی۔ انھوں نے تقریب میں اپنے ادیب اور شاعر دوستوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ ان میں مولانا حالی اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی جیسی قدآور شخصیات بھی شامل تھیں۔
تقریب کے بعد اپنے وقت کی ان قابل شخصیات نے ایک جگہ بیٹھ کر کچھ گفتگو کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ اصحاب بیٹھے ہی تھے کہ تنہا وہاں آگئے۔ اسماعیل میرٹھی نے انھیں دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولے۔
جناب، آپ اپنا تخلص بدل دیں، کیوں کہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔
اس سے پہلے کہ محمد یحییٰ تنہا ان کی بات کا جواب دیتے مولانا حالیؔ بول پڑے۔
نہیں مولوی صاحب یہ بات نہیں ہے۔ ‘‘تن۔۔۔ہا’’ تو دراصل یہ اب ہوئے ہیں۔ اس پر سبھی مسکرا دیے اور مولانا حالیؔ کی اس شگفتہ بیانی کا خوب چرچا ہوا۔

Comments

- Advertisement -