جمعرات, دسمبر 12, 2024
اشتہار

وہ جس نے "دیوتا” تخلیق کیا!

اشتہار

حیرت انگیز

محی الدین نواب نے اس زمین پر دو بار ہجرت کی۔

تقسیمِ ہند کے بعد مشرقی پاکستان گئے اور ملک دو لخت ہوا تو وہاں سے پاکستان چلے آئے، لیکن تیسری بار ایک ایسے دیس جا بسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ یہ 2016 کی بات ہے، فروری کی چھے تاریخ تھی جب انھوں نے دنیا سے کوچ کیا۔

آج محی الدین نواب کی برسی ہے۔ آئیے اس باکمال لکھاری اور مقبول ناول نگار کی یاد تازہ کرتے ہیں۔

- Advertisement -

حالاتِ زندگی پر چند سطور

محی الدین نواب نے 1930 میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ہندوستان کے صوبے بنگال کے شہر کھڑک پور میں پیدا ہونے والے محی الدین نواب نے تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کے لیے اُس وقت کے مشرقی پاکستان کا انتخاب کیا، مگر جب پاکستان کا یہ ٹکڑا الگ ہوا اور بنگلا دیش بنا تو انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ یہاں کراچی کو مستقر چنا اور زندگی کی آخری سانس تک اسی شہر میں رہے۔

تعلق تو ان کا بنگال سے تھا مگر گھر میں اردو بولی جاتی تھی جس نے اس زبان سے لگاؤ اور انسیت پیدا کر دی اور وہ وقت بھی آیا کہ ان کا نام اردو کے مشہور اور مقبول ترین کہانی کاروں میں لیا جانے لگا۔ محی الدین نواب نے افسانہ لکھا اور شاعری بھی کی، مگر ان کی اصل وجہِ شہرت وہ ناول ہیں جنھوں نے مصنف کے تخلیقی جوہر اور منفرد اسلوب کے ساتھ قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

زورِ قلم سے تصانیف تک

محی الدین نواب اپنے زورِ قلم سے واقف اور قارئین کی عام نفسیات کو خوب سمجھتے تھے۔ یہ کہا جائے تو کیا غلط ہو گا کہ وہ کسی ماہر نباض کی طرح معاشرے پر نظر ڈالتے تھے۔ ان کا اپنے مشہور ترین ناول دیوتا کے بارے میں دعوىٰ تھا کہ اگر کوئی شخص اس کے چند پارے پڑھ لے تو وہ مکمل ناول پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔

محی الدین نواب اپنی کہانیوں کی زمین اپنے گردوپیش، معاشرتی احوال سے اور افراد کے اعمال سے تیار کرتے تھے۔ اس کے ساتھ وہ انسان کی پیچیدہ نفسیات سے بھی اپنی کہانیوں کا موضوع نکالتے اور مکالمے بُنتے۔
محی الدین نواب نے ضخیم ناول کے ساتھ مختصر کہانیاں بھی لکھیں۔

ان کے قلم کی ایک خصوصیت حقیقت پسندی اور واقعہ نگاری ہے جسے انھوں نے بہت اہمیت دی اور سیاسی، سماجی، تاریخی موضوعات پر خوب لکھا۔

معاشرتی کہانیوں نے ان کے قارئین کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ پڑھنے والے ان کے دیوانے ہو گئے اور انھیں جراحِ معاشرہ کہا جانے لگا۔

عنوان کی ندرت، تعارف کی انفرادیت

محی الدین نواب کا قاری ان کے ناولوں کے پُرکشش اور بامعنى عنوان سے بھی متاثر نظر آتا ہے جو اسے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

دیوتا، وقت کے فاصلے، ادھورا ادھوری، بدی الجمع، جونک وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

دوسری طرف انھوں نے اپنی کہانی یا ناول کا نہایت خوب صورت اور پُرکشش تعارف کروانے کی روایت برقرار رکھی جس کی چند مثالیں یہ ہیں۔

ایک ناول قید حیات کی تعارفی سطور دیکھیے۔ لہلہاتے کھیتوں میں سرسراتی، تلخ اور عبرت ساماں حقیقتوں کا فسانہ، ان فصلوں کی پامالی کا احوال جنھیں بعض اوقات پکنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔ اپنے ناول گرفت کے تعارف میں لکھا ہے: “بات لہو کی ہو یا حنا کی تصور رنگوں سے شرابور ہو جاتا ہے، زندگی کے انہی دو عناصر سےآراستہ پل پل رنگ بدلتی یہ رنگا رنگ روداد طبقاتی تفاوت کی ہے اور سیاسی عداوت کی بھی۔

محی الدین نواب کے ناولوں میں کہانی کے دوران کہیں عبادت، کہیں محبت تو کہیں عشق کی تعریف ملتی ہے اور کہیں وہ بغض و عداوت کو بھی اپنی عینک سے دیکھ کر قاری کے سامنے بیان کرتے ہیں اور یہ قابلِ مطالعہ ہوتی ہیں۔ ایک ناول میں عبادت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عبادت بہت وسیع، بہت بڑا مفہوم رکھتى ہے، انسانوں سے محبت کرنا عبادت ہے، جانوروں پر رحم کرنا عبادت ہے، کسی کی زیادتی پر، خطا پر بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود درگزر کرنا عبادت ہے، کسی کو خوشی دینے کے لیے مسکرا دینا عبادت ہے۔

اب یہ دیکھیے کہ انھوں نے موٹر سائیکل سے انسانی حوصلے کو کس خوب صورتی سے جوڑ دیا ہے۔ ایک ناول میں لکھتے ہیں۔

اس کے پاس ایک بڑے سائز کی بھاری بھرکم موٹر سائیکل تھی، اس موٹر سائیکل کے پہیے اور فولادی پارٹس اس کے حوصلوں کی طرح مضبوط اور ناقابل شکست تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں