شہرہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کی یہ رباعی پڑھیے۔
ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف
صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔ آج اس عجوبہ روزگار کی برسی ہے۔ صادقین نے 10 فروری 1987 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔
صادقین کی وجہِ شہرت اسلامی خطاطی ہے جسے انھوں نے نئی جہات سے روشناس کیا۔
انھوں نے قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت اور نزاکتوں سے کینوس پر اتارا ہے۔
سید صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ 1930 میں امروہہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا خطاط تھے اور یہ خاندان اس فن کے لیے مشہور تھا۔
ابتدائی تعلیم امروہہ میں حاصل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور یہ خاندان کراچی میں بس گیا۔
کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں کی پہلی نمائش ہوئی۔
صادقین کے فن کو سراہنے اور آرٹ کے شعبے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں جہاں انھیں قومی اعزازات دیے گئے، وہیں دنیا بھر میں ان کے فن پاروں کی نمائش کے ساتھ امریکا، یورپ سمیت کئی ملکوں نے اپنے اعزازات ان کے نام کیے۔
صادقین، سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔