پہلے کچھ اور کیا کرتے تھے۔ ایک دن جھنجھلا کر کاتب بن گئے۔
آپ کی تحریر پر پِروئے ہوئے موتیوں کا گماں گزرتا ہے۔ زبان کے پکے ہیں۔ جب وعدہ کرتے ہیں تو اسی سال کام مکمل کر کے رہتے ہیں۔
لکھتے وقت موقعے (اور اپنے موڈ کے مطابق) عبارت میں ترمیم کرتے جاتے ہیں۔
عالمِ دلسوزی کو عالمِ ڈلہوزی، بِچھڑا عاشق کو بَچھڑا عاشق، سہروردی کو سر دردی، سماجی بہبودی کو سماجی بیہودگی، وادیٔ نیل کو وادیٔ بیل بنا دینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔
کسی غلام حسن کے نواسے نے اپنے آپ کو نبیرہ غلام حسن لکھا جو آپ کو نامانوس سا معلوم ہوا۔ چناں چہ آپ نے کچھ دیر سوچ کر اسے بٹیرہ غلام حسن تحریر فرمایا۔
ایک رومانی افسانے میں حور شمائل نازنین کو چور شمائل نازنین لکھ کر کہانی کو چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح قہقہے کو قمقمے، موٹے موٹے انجیروں کو موٹے موٹے انجینیئروں، اپنا حصّہ کو اپنا حقّہ، پُھلواری کو پٹواری بنا دیتے ہیں۔
پروازِ تخیل کی انتہا ہے کہ جہاں شبلی عفی عنہ لکھنا چاہیے تھا وہاں لکھا ستلی کئی عدد۔ اس وقت ملک میں آپ سے بہتر کاتب ملنا محال ہے۔
(شفیق الرحمٰن کی کتاب میں یہ شگفتہ پارہ "صحیح رقم خوش نویس” کے عنوان سے محفوظ ہے)