تحریر: عمیر حبیب
سیر و سیاحت اور تفریحی سرگرمیاں انسان کو نئی توانائی، ہمت، حوصلہ اور بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کا موقع دیتی ہیں۔ سیاحت، سیر اور تفریح کے مقابلے میں باقاعدہ صنعت ہے جس سے دنیا بھر کے کروڑوں لوگوں کا روزگار جڑا ہوا ہے۔
کرونا کی وبا نے جہاں عام زندگی اور کاروبار کو بری طرح متاثر کیا ہے، وہیں سیاحت اور اس پر انحصار کرنے والے ممالک کی معشیت پر بہت برا اثر پڑا ہے۔
سیاحت سے متعلق اقوامِ متحدہ کی عالمی تنظیم کے محتاط اندازے کے مطابق سیاحت میں جہاں رواں سال 80 فی صد تک کمی سے کم از کم 100 ملین ملازمتوں کو خطرہ لاحق ہے، وہیں اگلے چند سال میں سیاحت ایک مختلف شکل میں ڈھل سکتی ہے۔
دنیا کے کئی ممالک اب بھی اس وبا کی زد میں ہیں جب کہ بہت سے ممالک نے اس وبا پر قابو پانے کا دعویٰ کیا ہے، ان ممالک میں یونان بھی شامل ہے جس کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ کرونا پر قابو پا چکے ہیں اور ملک کو یکم جولائی سے سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ یورپ کے ایسٹونیا، لٹویا اور لیتھوانیا نے تینوں ملکوں میں شہریوں کی آمدورفت کے لیے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا ہے۔
پرتگال میں ایمرجنسی ختم کردی گئی ہے، مگر کچھ شرائط کے ساتھ اندرون ملک سفری کی اجازت دی گئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور اٹلی حالات پر قابو پانے کی کوشش کررہے ہیں اور ماضی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپ موجودہ حالات پر قابو پا لے گا۔
پیسیفک ایشیا ٹریول ایسوسی ایشن (پاٹا) کے چیف ایگزیکٹو ماریو ہارڈی کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران ویتنام اور تھائی لینڈ ایک ٹریول کوریڈور بنانے پر غور کر سکتے ہیں۔ سیاحت کے شعبے کے ماہر اور تجزیہ نگار برینڈن سوبی کو توقع ہے کہ یورپ اور امریکا میں بھی اسی طرح کے انتظامات دیکھنے کو ملیں گے، مگر سیاحت کے لیے ماحول سازگار بنانے میں اگلے چند سال تک خاموشی رہے گی۔
ماہرین کے مطابق کرونا کے بعد سفر اور سیاحت کے لیے ماحول بننے میں کچھ وقت لگے گا جب کہ بعض ماہرین نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم شاید دوبارہ کبھی اسی طرح سفر نہیں کرسکیں گے۔
سیاحت ایک ایسی صنعت ہے جو اس وبا کے بعد مکمل تبدیل ہوسکتی ہے اور ممکنہ طور پر اس میں بہتری آنے کا امکان ہے، کیوں کہ مستقبل میں صحتِ عامہ کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ سیاحت صرف مسافر کو ہی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ مقامی معیشتوں اور معاشروں پر بھی یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔
اس وقت معاش اور معیشت دونوں داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ سبھی ممالک سیاحت کو رواں دواں رکھنے کے طریقے سوچ رہے ہیں۔ سیاحت کے شعبے سے متعلق ادارے اور ماہرین اس بات کی کھوج میں لگے ہیں کہ اس صنعت کو کس طرح جدید اور محفوظ بنایا جائے اور ایسے کون سے اقدامات کیے جائیں جن سے چند سال کے اندر نقصانات کو پورا کیا جا سکے۔
ہمارے ملک میں بھی سیاحتی مقامات جن میں قدیم تہذیبوں کے آثار، تاریخی مقامات اور تفریح گاہیں شامل ہیں، کی کمی نہیں۔ کورونا کی قید میں سیاحت کے لیے گھر سے نکلنے کے بجائے شوقین اسے پڑھ رہے ہیں، یعنی کتابوں اور مختلف ذرایع سے دنیا بھر کے سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھا کررہے ہیں۔
ہم اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحتی مقامات سے متعلق معلومات اور سفر و قیام کی سہولیات سے دنیا کو آگاہی دے سکتے ہیں۔ اس ضمن میں آزاد کشمیر کی وادیوں، پہاڑی سلسلوں، جھیلوں، صدیوں پرانی تہذیبوں اور قدیم عمارتوں کی تصویری جھلکیاں دکھائی جاسکتی ہیں اور ان مقامات کی ویڈیوز تیار کی جاسکتی ہیں جو سیاحوں کو آنے والے دنوں میں پاکستان کا رخ کرنے پر آمادہ کریں۔ اس سے نہ صرف ہمارے ملک کا امیج بہتر ہوگا بلکہ سیاحت کو فروغ ملے گا جس سے لڑکھڑاتی ہوئی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔
(بلاگر علم و ادب کے شیدا اور مطالعے کے عادی ہیں۔ سماجی موضوعات، خاص طور پر عوامی ایشوز پر اپنے تجربات اور مشاہدات کو تحریری شکل دیتے رہتے ہیں۔)