تازہ ترین

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج روانہ ہوگا

چاند پر پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن آج چین...

دیامر: مسافر بس کھائی میں گرنے سے 20 مسافر جاں بحق، متعدد زخمی

دیامر: یشوکل داس میں مسافر بس موڑ کاٹتے ہوئے...

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

خیامُ الہند کی شاعری جگر کے قدموں میں

ایک دور تھا جب شہنشاہ تغزل جگر مراد آبادی اپنے فن اور تخلیقات کی وجہ سے ہندوستان بھر میں پہچانے جاتے تھے۔ انھیں ادبی محافل اور خاص طور پر مشاعروں میں‌ مدعو کیا جاتا اور بڑی تعداد میں سامعین ان کا کلام سننے کے لیے پنڈال میں جمع ہوتے تھے۔

آج بھی جگر کا نام اور ان کا کلام ہمارے ذوق کی تسکین کرتا ہے اور جگر کے فن اور ان کی شاعرانہ عظمت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔

یہ ادبی تذکرہ جگر مراد آبادی کی فنی عظمت اور شعروسخن میں ان کے کمال کی ایک مثال ہے۔

کہتے ہیں ہندوستان میں ایک مشاعرہ تھا جس میں جگر بھی مدعو تھے۔شعرا کو ردیف "دل بنا دیا” کے ساتھ اپنے تخیل کو باندھنا تھا۔

سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف میں اپنا شعر پیش کیا:

اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی
سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا

اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟

لیکن پاک و ہند کے مشہور شاعر جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہو گیا۔ جگر کا شعر تھا:

بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی
جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا

حیدر دہلوی اپنے وقت کے استاد تھے اور خیامُ الہند کہلاتے تھے۔ جگر کا کلام سنتے ہی گویا سکتے کی کیفیت میں آگئے، جگر کو گلے سے لگایا، ان کے ہاتھ چومے اور وہ صفحات جن پر ان کی شاعری درج تھی جگر کے پیروں میں ڈال دیے۔

Comments

- Advertisement -