آپ نے یہ محاورہ تو سنا ہو گا "جس کا کام اسی کو ساجے۔”
محاورات، کہاوتیں اور ضرب الامثال ہماری گفتگو اور تحریر کا حسن بڑھاتے ہیں اور اکثر نصیحت کرنے اور کسی کو کوئی نکتہ سمجھانا ہو تو بھی انھیں برتا جاتا ہے۔
محاوروں سے جڑی کہانیاں دل چسپ بھی ہوتی ہیں اور سبق آموز بھی۔ اس محاورے سے متعلق مشہور کہانی یہ ہے۔
گرمی کا موسم تھا، دھوپ کی شدت تھی۔ ہر طرف آسمان سے آگ برس رہی تھی۔ ایک بڑے جنگل کے کنارے ایک بڑ کا درخت شاخوں اور پتوں کی چھتری تانے کھڑا تھا۔
اس کی گھنی چھائوں میں بڑا کمرہ سا بنا کر ایک بڑھئی لکڑی کے بڑے بڑے لٹھ چیرنے میں مصروف تھا۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول تھا کہ اس نے کبھی بڑ کی چھائوں کے سوا کسی طرف خیال نہیں کیا تھا۔
بڑ کے اوپر ایک بندر بھی رہا کرتا تھا اور بڑی توجہ سے بڑھئی کو لکڑی چیرتے دیکھا کرتا تھا۔ اسے بڑھئی کا کام اتنا پسند تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ بڑھئی چلا جائے اور اس کی جگہ وہ لٹھ پر بیٹھ جائے۔ بندر کی خواہش تھی کہ وہ بڑھئی بن کر لکڑی چیرے۔ بڑھئی اکثر لکڑی چیرتے وقت لکڑی کی درز میں ایک پچر ٹھونک لیا کرتا تھا۔
بندر نے یہ سب دیکھتا تھا اور اب موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ بڑھئی کسی حاجت کے لیے لٹھ سے اٹھا۔ آری اور پچر دونوں اپنی اپنی جگہ چھوڑے اور خود چلا گیا۔ بندر نے یہ دیکھا اور موقع پایا تو درخت سے اترا، لٹھ پر آ بیٹھا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر لکڑی کی درز کے پچر کے ساتھ کھیلنے لگا۔ زور لگاتا اور اس کو ہلاتا رہا۔ ہلتے ہلتے آخر پچر درز سے نکل آئی اور درز بند ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی بندر کا ہاتھ درز میں آ کر پھنس گیا۔
بندر بہت چیخا چلایا، اور تڑپا مگر ایسا پھنسا کہ نکل نہ سکا۔ آخر بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ بڑھئی نے بندر کی چیخیں سنیں تو بھاگا ہوا آیا۔ اس نے وہاں بندر کو بے حس و حرکت پڑے پایا۔ جلدی سے پچر اٹھائی اور لکڑی کی درز میں ٹھونک دیا۔
درز کھلی تو بندر پھر بھی نہ ہلا۔ بڑھئی نے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اسے درز کی قید سے نکال کر الگ کیا اور دور پھینک آیا۔ وہ بہت غصے میں تھا۔ اپنے کام پر بیٹھتے ہوئے بڑبڑایا جس کا کام اسی کو ساجے۔
کہتے ہیں بندر کے یوں اپنے انجام کو پہنچنے کی کہانی بعد میں بڑھئی نے دوسروں کو سنائی اور ہر ایک سے یہی کہتا جس کا کام اسی کو ساجے۔ اس طرح یہ محاورہ مشہور ہوگیا۔