بیروت : لبنان کے دارالحکومت بیروت میں دھماکے کے بعد لبنان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوگیا، ہزاروں شہریوں کا حکومت کیخلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے، مشتعل افراد نے وزارت خارجہ کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔
مظاہروں کی شدت دیکھتے ہوئے ہفتہ آٹھ اگست کی شام لبنانی وزیر اعظم حسن دیاب نے اپنے نشریاتی خطاب میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کرانے کی تجویز بھی دے دی۔
اس کے باوجود عوامی غم و غصے میں کمی نہیں ہوئی اور ہفتے کی رات مظاہرین نے ملکی وزارت خارجہ سمیت کئی سرکاری عمارتوں میں داخل ہو گئے۔
جھڑپوں کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا، شہریوں نے بندرگاہ پر دھماکے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی ہے اور حکومت سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔
پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش فورسز نے ناکام بنادی، مشتعل افراد کو منتشر کرنے کے لئے فورسز نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کیا۔ مظاہرین نے بینکس ایسوسی ایشن کے ہیڈ کوارٹرز پر بھی دھاوا بول کر ایک حصے کو آگ لگادی، فورسز اور شہریوں کے درمیان تصادم میں سو سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔
دھماکے سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے جب دو وزرا موقع پر پہنچے تو لوگوں نے انھیں وہاں سے بھگا دیا۔ اس دھماکے میں تقریباً چھ ہزارافراد زخمی ہوئے ہیں اور تازہ اعدادو شمار کے مطابق30تیس ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
بیروت میں امونیم نائٹریٹ کی بڑی مقدار پھٹنے سے ہونے والا دھماکا اس قدر شدید تھا کہ ماہرین کے مطابق اسے ایک بڑا دھماکا کہنے کی بجائے ایک چھوٹا ایٹمی دھماکا کہنا غلط نہ ہو گا۔
شہر کا وسیع علاقہ اس دھماکے کے باعث کھنڈر کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دھماکے کی جگہ پر پڑنے والے گڑھے کی گہرائی 141 فٹ ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں بیروت میں ہونے والے ہولناک دھماکے کے نتیجے میں 150 افراد ہلاک جبکہ 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے۔