آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے وقت میں سے چند لمحے نکال اپنے ڈپریشن کا شکار دوستوں کی بات سن لیں، تو انہیں خودکشی جیسے انتہائی اقدام سے بچا سکتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل معروف بالی ووڈ اداکار سشانت سنگھ کی خودکشی نے جہاں ایک طرف تو کئی تنازعوں کو جنم دیا، وہیں دماغی صحت کے حوالے سے ہمارے رویوں پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کردیا۔
یہ موضوع اس وقت دنیا بھر میں زیر بحث ہے کہ کیوں ہم اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہوگئے ہیں کہ ہمارے پاس اپنے ارد گرد کے افراد کی پریشانی سننے کے لیے ذرا سا بھی وقت نہیں اور نہ ہم ڈپریشن کو بیماری ماننے کے لیے تیار ہے۔
یہی ڈپریشن اور ذہنی تناؤ ہے جو کسی شخص کو خودکشی کی نہج پر پہنچا دیتا ہے اور اس کے لیے زندگی بے معنی بن جاتی ہے۔
Today is #WorldSuicidePreventionDay.#Suicide is a global public health issue.
All ages, sexes, and regions of the 🌎🌍🌏 are affected.Lives are lost, while suicides are preventable.
👉 https://t.co/M0K8sRMUSH pic.twitter.com/G6wjbhgWMl
— World Health Organization (WHO) (@WHO) September 10, 2020
ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ خودکشی انہیں راہ نجات نظر آنے لگتی ہے۔
جب کوئی شخص کینسر یا کسی دوسرے جان لیوا مرض کا شکار ہوتا ہے تو کیا ہم ان کے لیے بھی ایسے ہی غیر حساسیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں، تو پھر ذہنی صحت کے حساس معاملے میں اتنی بے حسی کیوں دکھائی جاتی ہے۔
خودکشی کے خلاف کام کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائڈ پریوینشن (آئی اے ایس پی) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال خودکشی کرنے والے افراد کی تعداد جنگوں اور دہشت گردی میں ہلاک اور قتل کیے جانے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔
ہر 40 سیکنڈ بعد دنیا میں کہیں نہ کہیں، کوئی نہ کوئی خودکشی کی کوشش کرتا ہے۔
خودکشی کی طرف لے جانے والی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔
سائیکٹرک فرسٹ ایڈ
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن میں کمی کا سب سے آسان طریقہ اپنے خیالات اور جذبات کو کسی سے شیئر کرنا ہے، بات کرنے سے دل و دماغ کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار شخص کو سب سے زیادہ ضرورت اسی چیز کی ہوتی ہے کہ کوئی شخص اسے بغیر جج کیے اس کی باتوں کو سنے اور جواب میں اس کی ہمت بندھائے۔
کراچی کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کے مطابق اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔
مغربی ممالک میں اسی مقصد کے لیے ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے ایسی ہیلپ لائن قائم کی جاتی ہے جہاں دوسری طرف ان کی بات سننے کے لیے ایک اجنبی شخص موجود ہوتا ہے اور مریض جب تک چاہے اس سے بات کرسکتا ہے۔
کیا یہ پہلے سے جانا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص خودکشی کا ارادہ رکھتا ہے؟
ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔
ان کے مطابق ایسا شخص اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتا ہے جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ وہ خودکشی کرنے والا ہے۔
یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے، اس کے برعکس اس کی بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
کراچی میں نفسیاتی صحت کے ایک ادارے سے وابستہ ڈاکٹر طحہٰ صابری کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔
اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔
اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔
ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی شخص کی جان لے لے۔