ہفتہ, دسمبر 28, 2024
اشتہار

آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین جاری تنازع کب شروع ہوا؟

اشتہار

حیرت انگیز

باکو/یریوان : مسلم اکثریتی آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا کے مابین ہونے والی جھڑپیں 1918 سے جاری تنازعے کی وجہ سے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق وسطی ایشیائی ممالک آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جاری کشیدگی سوویت یونین سے جڑی ہے اور ماضی میں نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر دونوں ممالک میں جھڑپیں ہوچکی ہیں جس کے باعث ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

نگورنو کاراباخ کے علاقے کو سوویت حکمرانوں نے 1923 میں آذربائیجان کا حصّہ بنادیا تھا تاہم جیسے ہی سوویت یونین کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوئی، آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین مذکورہ خطے پر حکمرانی کےلیے جنگ شروع ہوگئی۔

- Advertisement -

دونوں ممالک کے درمیان 1988 سے 1994 تک ہونے والی چھ سالہ خونریز جنگ کے دوران تیس ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے باعث نگورنوکاراباخ کے مکینوں سے ہجرت کرنا شروع کردی تھی۔

نگورنوکاراباخ سے آذری باشندوں کی بڑی تعداد کے کوچ کرجانے کے بعد اکثریت آرمینی باشندوں کی رہ گئی جس کی وجہ حکومت بھی آرمینی باشندوں کی بنی جو آرمینیا کی حمایت یافتہ تھی۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد 1991 میں نگورنوکاراباخ میں عوامی ریفرنڈم کروایا گیا جس میں انہوں نے آذربائیجان سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا تاہم اسے اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے تسلیم نہیں کیا اور آج بھی نگورنوکاراباخ کو آذربائیجان کا حصّہ تسلیم کرتے ہیں۔

1988 میں ہونے والی جنگ کو چھ سال بعد بلاآخر روس کی ثالثی سے ختم ہوگئی تاہم اس کے بعد بھی دونوں ممالک کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوتی رہی ہیں اور حالیہ جھڑپوں سے قبل 2006 میں بھی پانچ روزہ جنگ ہوئی ہے جس میں سو افراد لقمہ اجل بنے تھے۔

 آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ناگورنو کاراباخ ریجن کے معاملے پر 12 جولائی 2020 سے کشیدگی جاری تھی، بین الاقوامی طور پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن سنہ 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ ختم ہونے کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔

ترکی نے ہمارا لڑاکا طیارہ مار گرایا، آرمینیا کا الزام، ترکی کی تردید

خیال رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقے میں شدید جھڑپیں جاری ہیں جس کے نتیجے میں اب تک 100 کے قریب سویلین و فوجی ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ سیکڑوں زخمی ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں