میں نے صبح اخباروں میں دیکھا کہ حسرت صاحب (چراغ حسن حسرت) کے صحت یاب ہونے کی خوشی میں اردو ادب کے اور مولانا کے دوست وائی۔ ایم۔ سی۔ اے میں ایک جلسہ کررہے تھے۔ حسرت صاحب سے چوں کہ مجھے عقیدت ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے اپنا عزیز سمجھتے ہیں، اس لیے میں نے اپنا فرض سمجھا کہ ان کے بارے میں جو میرے احساسات ہیں، قلم بند کروں اور اس جلسے میں حاضرین کو پڑھ کر سناؤں۔
ریڈیو اسٹیشن سے میں سیدھا وائی، ایم، سی، اے پہنچا۔ ہال میں سو ڈیڑھ سو آدمی تھے۔
میں نے ایک نظر حسرت صاحب کی طرف دیکھا۔ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ویسی کی ویسی تھیں، مگر بے حد لاغر تھے۔ پھولوں کے ہاروں سے لدے پھندے ایک ایسے بوڑھے دولھا دکھائی دے رہے تھے جنہیں پانچویں، چھٹی شادی کرانے کا شوق چڑھ آیا ہو۔
بہرحال میں نے دل ہی دل میں اس بات کا افسوس کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کی شدید علالت کے دوران میں عیادت کے لیے نہ گیا، اپنا مضمون پڑھنا شروع کیا۔
حسرت صاحب اپنے موڈ میں نہیں تھے، شاید تعریفوں کی بھرمار اور پھولوں کے بوجھ سے ان کی طبیعت مکدر ہو چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس سعادت مند کے احساسات کو بھی جو کافی بے تکلف تھے، گوارا نہ کیا۔ جب میں ایک صفحہ پڑھ چکا تھا تو انہوں نے مجھے اور صاحبِ صدر کو مخاطب کرکے کہنا شروع کیا کہ یہ کیا بکواس ہے؟؟؟
بکواس تو میں عام کرتا ہوں، لیکن جہاں تک حسرت صاحب کا تعلق ہے، ان کے متعلق میں کبھی بکواس نہیں کرتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میں نے ان کے کردار و اطوار کے متعلق چند ایسی باتیں اپنے ٹھیٹ افسانوی مگر صاف گو انداز میں بیان کردی ہیں جو ان کی طبعِ نازک پر بار گزری ہوں لیکن میرے پھکڑ پن کے پیشِ نظر اور اس محبت کو سامنے رکھتے ہوئے جو مجھے ان سے ہے اور یقیناً ان کو بھی ہے، مجھے معاف کر دینا چاہیے تھا۔
جب میں نے دیکھا کہ ان کی خفگی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے تو میں نے صاحبِ صدر سے کہا۔
’’اگر حسرت صاحب چاہیں تو اپنا مضمون پڑھنا بند کر دیتا ہوں۔‘‘ مگر انہوں نے ارشاد فرمایا کہ’’نہیں مضمون پڑھنا جاری رکھو۔‘‘
سخت گرمی تھی، کچھ حسرت صاحب کے مزاج کی بھی۔ میں پسینے میں شرابور تھا۔ مضمون ختم ہوا تو میں نے حسرت صاحب کے پاس فرش پر بیٹھ کر معذرت چاہی، لیکن اس وقت وہ در گزر کرنے یا میرے احساسات کے خلوص کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میں نے کہا، ہٹاؤ یہ شخص اگر نہیں مانتا تو نہ مانے اور اسٹیج سے اتر کر مصور پاکستان جناب عبدالرحمن چغتائی صاحب کے پاس بیٹھ گیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے میرا تکدر دور کیا۔ اس کے بعد میں وہاں سے چلا گیا۔
دوسرے روز سننے میں آیا کہ سعادت حسن منٹو کی وائی، ایم سی، اے میں حجامت ہوتے ہوتے رہ گئی کیوں کہ حسرت صاحب کے مداحوں کو میری ہرزہ سرائی بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ وہاں کچھ مداح میرے بھی تھے جو ہر اس شخص کی حجامت کرنے کے لیے تھے جو میری حجامت پر آمادہ ہوتا۔ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں تو مزہ آجاتا ہے۔ اس جلسے میں جتنے بھی اصحاب تھے، ان کی مفت میں حجامت ہو جاتی اور میں تو چچا غالب کا یہ شعر پڑھ کر ان تمام حجاموں کو سناتا۔
ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا اس بے پر و بالی نے مجھے
یہ ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق بہت کچھ کہا سُنا جاسکتا ہے۔ حسرت صاحب کی تقدیس کسی ولی یا پیغمیر کی تقدیس نہیں ہوسکتی۔ ان کی شخصیت سے ان کی صحافت نگاری اور مزاح نویسی ہی سے کسی کو عقیدت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح مجھے کئی لوگ محض باتیں بنانے والا سمجھتے ہیں اور افسانہ نگار نہیں مانتے، ان کو بھی چند لوگ محض ایک کالم نگار سمجھتے ہوں مگر اس میں خفا ہونے کیا بات ہے۔
(سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس)