منگل, جولائی 1, 2025
اشتہار

کیا کورونا وائرس اب پہلے جیسا ہلاکت خیز نہیں رہا؟

اشتہار

حیرت انگیز

واشنگٹن: نئے کرونا وائرس کی دنیا بھر میں زبردست ہلاکت خیزی کے مشاہدات اور مطالعات کے بعد طبی ماہرین نے اب اس سلسلے میں تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ کیا کو وِڈ 19 اب پہلے جیسا ہلاکت خیز نہیں رہا۔

دنیا بھر میں کرونا وائرس کا مرکز بننے والے مقامات پر اموات کی شرح میں نمایاں کمی آ چکی ہے حالاں کہ کرونا وبا کی نئی لہر کے دوران انفیکشن کی شرح بھی بڑھ گئی ہے، پھر بھی سائنس دان اس حوالے سے تو پُر اعتماد ہیں کہ یہ تبدیلی حقیقی ہے مگر اس کی وجوہ اور اس کا برقرار رہنا تاحال قابل بحث سمجھا جا رہا ہے۔

بوسٹن یونی ورسٹی اسکول آف میڈیسن کے وبائی امراض کے ماہر جوشوا باروکس کا کہنا ہے کہ یہ ایک رجحان ہے یا محض عارضی ٹھہراؤ، کسی کو معلوم نہیں۔ کیوں کہ اس وبا کے آغاز ہی سے اس کی شرح اموات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔

اس تناظر میں امریکی ریاست مشی گن کے ڈیٹرائٹ میڈیکل سینٹر میں تین ماہ مسلسل کام کرنے والے سید الزین نے دیکھا کیا کہ مئی میں اس سے قبل کے مہینوں میں آنے والے مریضوں کے مقابلے میں اب کرونا وائرس کے مریض زیادہ بیمار نہیں ہوتے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ یہاں سے 4 ہزار سے زائد میل دور شمالی اٹلی کی خاتون محقق کیارا پی بیلی نے بھی یہی نتیجہ نکالا۔ اسپین کے وبائی امراض کے ماہر رافیل کینٹن نے بھی اس تبدیلی کو واضح طور پر دیکھا۔

چین سے آنے والی ابتدائی رپورٹس کے مطابق کرونا وائرس کی شرح اموات 7 فی صد تک تھی لیکن یہ شرح زیادہ تر اسپتال داخل مریضوں پر مبنی تھی، جب اس کی لہر امریکا پہنچی، تو وبائی امراض کے ماہرین کا خیال تھا کہ اس کی شرح 2 سے 3 فی صد ہے۔ اب امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے مطابق یہ شرح 0.65 فی صد ہے۔

جوشوا باروکس کا اصرار ہے کہ کم تخمینے کے باوجود لاکھوں اموات کا امکان ہے، کیوں کہ امریکا میں اس وقت کرونا وائرس کے کیسز کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اموات بھی کسی اور ملک کے مقابلے میں زیادہ ہوئی ہیں، یعنی تمام اموات کا 20 فی صد۔

پبلک ہیلتھ آفیشلز شرح اموات میں کمی کی متعدد وجوہ بتاتے ہیں، جیسا کہ نوجوان اس کا زیادہ شکار ہو رہے ہیں اور ان کی قوت مدافعت صحت یابی میں مدد دیتی ہے۔ بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ سے کیسز کی جلد تشخیص ہو رہی ہے اور علاج کی حکمت عملیاں بھی بہتر ہوئی ہیں۔

ابتدائی تحقیق میں ایک خیال یہ سامنے آیا تھا کہ آبادی کے ایک حصے کو پہلے ہی جزوی طور پر کرونا وائرس کے خلاف مدافعت حاصل ہے، ممکنہ طور پر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کرونا وائرسز یا بچپن کی ویکسی نیشن یا کسی اور وجہ سے۔ ایک اور اہم امکان یہ ہے کہ ہمارا ماحول تبدیل ہوا ہے یعنی موسم، رویے یا بذات خود وائرس۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بیش تر وائرسز کی ہلاکت خیزی کی صلاحیت بتدریج کم ہونے لگتی ہے جس کی مختلف وجوہ ہیں جیسے میزبانوں کی کمی، وائرس میں تبدیلیاں جو اسے کم جان لیوا بناتی ہیں، نئے طریقہ علاج یا ویکسینز۔ ماہرین کے مطابق نئے کرونا وائرس کے ساتھ بھی ایسا ضرور ہوگا، مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کب تک ہوگا اور جب تک مزید کتنی ہلاکتیں ہو چکی ہوں گی، تاہم اس سلسلے میں سماجی دوری اور فیس ماسک کے کردار کو بھی سراہا گیا۔

طبی ماہرین نے ایک اور نکتہ یہ دریافت کیا ہے کہ وقت کے ساتھ کرونا کے وائرل لوڈ (جسم میں وائرس کی مقدار کو جانچنے کا پیمانہ) میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے، کیلی فورنیا یونی ورسٹی کی وبائی امراض کی محقق مونیکا گاندھی نے اس حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ابتدائی وائرل لوڈ کم ہو تو اس بات کا امکان ہے کہ لوگوں کے جسم اس سے زیادہ مؤثر طریقے سے لڑنے کے قابل ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ وائرل انفیکشن کی روک تھام کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں اس کی شدت کم ہوئی ہے۔

دوسری لہر

کرونا وائرس کی شدت میں کمی کی ابتدائی رپورٹس مئی کے آخر میں سامنے آئی تھیں اور ان پر کافی شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔

اٹلی کے شہر میلان کے سان ریفایلی اسپتال کے سربراہ ڈاکٹر البرٹو زینگریلو نے 31 مئی کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا حقیقت تو یہ ہے کہ طبی لحاظ سے یہ وائرس اب اٹلی میں موجود نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 دن کے دوران سویب ٹیسٹ میں جو وائرل لوڈ دیکھا گیا وہ ایک یا 2 ماہ قبل کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری لہر 16 مئی سے 7 جولائی تک تھی جس میں پہلے کے مقابلے میں کم تعداد یعنی 20 فی صد کو آئی سی یو کی ضرورت پڑی جب کہ 13 مارچ سے 15 مئی کے دوران پہلی لہر میں 38 فی صد مریضوں کو آئی سی یو میں داخل کیا گیا تھا۔

اسی طرح دوسری لہر کے مریضوں نے کم وقت اسپتال میں گزارا جو کہ 4.8 دن تھا جو پہلی لہر کے مریضوں میں اوسطاً 7.1 دن تھا۔ مگر سب سے اہم بات یہ تھی کہ دوسری لہر کے مریضوں میں اموات کی شرح 5.1 فی صد تھی جب کہ پہلی لہر کے مریضوں میں 12.1 فی صد تھی۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں