کراچی : یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے پاکستان سے متعلق اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا ہے جس کے بعد پاکستان کی قومی ایئرلائن کے ساتھ تمام نجی ایئرلائنز پر بھی پابندی کا خطرہ منڈلارہا ہے۔
پاکستان ائیرلائنز پائلٹس ایسوسی ایشن(پالپا) کے نائب صدر کیپٹن بجارانی کے مطابق ای اے ایس اے نے اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کرنے کے ساتھ ہوابازی کے قومی ریگولیٹر پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کو بھی تحقیقات میں شامل کرلیا ہے۔
یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنس نے پاکستان کا درجہ کم کردیا ہے اور اب اگر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ای اے ایس اے کو پائلٹس کے لائسنس سے متعلق معاملے پر مطمئن نہ کرسکی تو قومی ایئرلائن کے ساتھ تمام نجی ایئرلائنز کو بھی یورپ میں پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ای اے ایس اے پاکستان میں سیفٹی منجمنٹ سسٹم کے حوالے سے فکر مند ہے اور 2019سے متواتر کئی مرتبہ وارننگ بھی جاری کرتا رہا جن پر پی آئی اے عمل کرنے میں ناکام رہا۔
اس حوالے سے کیپٹن بجارانی نے کہا ہے کہ قومی ایئرلائن نے یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کے ایس ایم ایس پر عمل درآمد کے بجائے لازمی سروس ایکٹ متعارف کرادیا جو نہ صرف یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کے ایس ایم ایس کے یکسر منافی ہے بلکہ یونین اور ایسوسی ایشن کو مسترد کرتا ہے جو یورپی ایجنسی کے ایس ایم ایس کا لازمی جز ہیں اور ملازمین کا ردعمل فراہم کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرز کا تادیبی کلچر یورپی ایجنسی کے ایس ایم ایس کے مقاصد کے بھی خلاف ہے جو ایس ایم ایس پر عمل درآمد کے لیے تمام متعلقہ یونینز اور ایسوسی ایشنز کی شرکت کولازمی قرار دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ای اے ایس اے نے اپنی پابندی کا دورانیہ غیرمعینہ مدت تک وسیع کردیا ہے اور اب ایجنسی کے آڈٹ کے بعد ہی واضح ہوگا کہ پاکستان پر سے پابندی ہٹادی جائیگی یا اسے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے کسی ایئر نیوی گیشن آرڈر کے تحت استثنی کی حاصل پروازوں کی بھی اپنی صوابدید پر نگرانی کرے گا۔
پالپا کے نائب صدر کیپٹن بجارانی نے کہا کہ یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کو پاکستان میں پائلٹس کو لائسنس کے اجراء کے طریقہ کار پر بھی اعتراضات ہیں جو پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو دور کرنا ہوں گے ورنہ پاکستان پر عائد پابندیوں کا خاتمہ تقریباً ناممکن ہوگا۔
دوسری جانب انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) بھی جون2021میں پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا آڈٹ کریگی۔ آئی سی اے او رکن ممالک کا ہر دو سال بعد آڈٹ کرتی ہے اور پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا گزشتہ آڈٹ نو سال قبل 2011میں کیا گیا تھا.
اس آڈٹ رپورٹ میں پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی سے متعلق چشم کشاء حقائق سامنے آئے تھے اور ان کی بنیاد پر آئی سی اے او نے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو یلو کٹیگری میں شامل کرتے ہوئے راست اقدامات پر مبنی پلان طلب کیا تھا جن میں ڈپیوٹیشن کے مسئلے کے حل کا پلان بھی شامل تھا۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی نے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کو راست اقدامات اٹھانے اور ایکشن پلان پر مختلف دورانیوں میں عمل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم ایکشن پلان پر عمل درآمدکے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور معاملات گزرتے سالوں میں مزید بگڑتی چلی گئی اور اب نوبت اسٹیٹ سیفٹی پروگرام پر عمل درآمد نہ ہونے تک پہنچ گئی۔
کیپٹن بجارانی نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی ان مسائل کو کس طرح اگلے چھ ماہ یعنی جون2021تک حل کرپائے گی جبکہ وہ ان مسائل کو گزشتہ کئی سال میں حل کرنے میں ناکام رہی۔ یہ مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک متعلقہ عہدوں پر اہل اور باصلاحیت افراد کو تعینات نہ کردیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگناجزیشن کے ساتھ یورپی یونین کی ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی نے بھی پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے تقریباً تمام شعبہ جات اور سیکٹرز پر اعتراضات اٹھائے ہیں جن میں پائلٹس کے لائسنس اور ان کے امتحانات کا معاملہ بھی شامل ہے۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کو انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی جانب سے3نومبر کو وارننگ لیٹر جاری کیا گیا جس میں واضح کیا گیا ہے کہ 90روز میں پائلٹ کے لائسنس اور امتحانات کا معاملہ حل نہ کیا گیا تو پاکستان کو آئی سی اے او کی ویب سائٹ پر اہم سیفٹی خدشات (ایس ایس سی) کی فہرست میں شامل کردیا جائے گا۔