واشنگٹن : دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت امریکہ میں انتقال اقتدار کا مرحلہ بہت پیچیدہ اور دھیمی رفتار سے بڑھتا ہے، اس کام کی تکمیل میں لگ بھگ تین ماہ لگ جاتے ہیں۔
گو کہ بہت سی جمہوریتوں میں لیڈر تیزی سے ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں مگر امریکہ انتقال اقتدارکی جانب دھیرے دھیرے بڑھتا ہے کیونکہ یہاں اقتدار کی منتقلی کا وقت 11 ہفتے ہے۔
ہو سکتا ہے کہ دیکھنے میں یہ عمل سست رفتار دکھائی دیتا ہو مگر یہ چار ماہ کے اس عرصے سے کم ہے جو ابتدا میں امریکی آئین میں موجودہ صدر سے نو منتخب صدر کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔
امریکی صدور کی تبدیلی کا نومبر تا مارچ کی مقرر کردہ مدت کا تعین سب سے پہلے اٹھارویں صدی میں کیا گیا تھا۔ اُس وقت ملک کے اندر معلومات اور افراد کی منتقلی کا عمل سست رفتار ہوا کرتا تھا۔
پارلیمانی جمہوریتوں میں کابینہ کے اراکین پارلیمان سے لیے جاتے ہیں اور اس کے رکن دارالحکومت میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ ایک وسیع ملک ہے اور اس میں ذہین سیاسی افراد پورے ملک میں پھیلے ہوتے ہیں۔
امریکہ کو عظیم کساد بازاری کے دوران پیش آنے والی مشکلات نے لیڈروں کو نومنتخب صدر کو زیادہ تیزی سے اپنا عہدہ سنبھالنے کے لیے حلف وفاداری پر قائل کیا جس کے نتیجے میں “لنگڑی بطخ” کی مدت تین ماہ سے کم ہو گئی۔ (“لنگڑی بطخ” کی اصطلاح ایک ایسے منتخب عہدیدار کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کی جگہ نیا عہدیدار منتخب کیا جا چکا ہوتا ہے۔ ایسا فرد سیاسی لحاظ سے کمزور پوزیشن میں ہوتا ہے۔)
بیسویں ترمیم میں جس کی توثیق 1933ء میں کی گئی صدر کی حلف وفاداری کی تاریخ 20 جنوری مقرر کی گئی۔ تاہم صدارتی انتخابات اب بھی نومبر کے شروع میں ہوتے ہیں۔
جنوبی میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں صدارتی تاریخ کے مرکز کے ڈائریکٹرجیفری اے اینگل کہتے ہیں کہ کابینہ اور اعلی حکومتی سطح پر افسران کی تعیناتی میں کافی وقت لگتا ہے۔
امریکہ میں صدور کے درمیان تقریباً تین ماہ کی مدت برقرار رکھنے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں جیتنے والی پارٹی کے فیصلہ کرنے کی بجائے امریکہ میں عام انتخابات کے کئی ہفتوں بعد صدر کو باضابطہ طور پر الیکٹورل کالج منتخب کرتا ہے۔
ایک طرف اس کا یہ مطلب ہے کہ صدر فی الفور اپنا عہدہ نہیں سنبھال سکتا تو دوسری طرف یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ جیتنے والا امیدوار انتقال اقتدار کے لیے پیسے حاصل کرے اور جانے والی انتظامیہ سے بریفنگ لے۔
اس حوالے سے فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کی سابقہ پروفیسر ایلزبتھ بی گولڈ اسمتھ کہتی ہیں کہ امریکی بذات خود بھی انتقال اقتدار کی اس مدت کو پسند کرتے ہیں کیونکہ انتخابات کے فوراً بعد یوم تشکر آجاتا ہے جس کے بعد جلدی جلدی کرسمس، حنوکا اور موسم سرما کے دیگر تہوار آجاتے ہیں۔
امریکہ اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ یہاں صدر کی حیثیت سربراہ حکومت اور سربراہ مملکت دونوں کی ہوتی ہے۔ (تصور کریں کہ برطانوی وزیر اعظم اور ملکہ کو بیک وقت تبدیل کرنا کیسا ہوگا۔)
دیکھنے میں یہ تبدیلی جتنی بھی سست رفتار لگے مگر حقیقت میں وائٹ ہاؤس میں ایک صدر کا جانا اور دوسرے کا آنا اتنا تیزی سے انجام پاتا ہے کہ اس کے لیے سرکاری ملازمین کی باریک بینی سے کام کرنے والی ایک ٹیم درکار ہوتی ہے۔
عام طور پر موجودہ صدر وائٹ ہاؤس میں اپنے گھر سے حلف وفاداری کی تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوتا ہے اور چند گھنٹوں بعد نیا صدر وائٹ ہاؤس میں منتقل ہو جاتا ہے۔ گولڈ اسمتھ نے بتایا کہ سینکڑوں ملازمین صبح سویرے کام شروع کر دیتے ہیں تاکہ نجی رہائش گاہ کے 132 کمرے اور عوامی مقامات آنے والے صدر کے لیے تیار ہوں۔