آج اردو کے ممتاز مزاح گو شاعر دلاور فگار کی برسی ہے۔ 21 جنوری 1998ء کو اس دنیا سے رخصت ہونے والے دلاور فگار کو بابائے ظرافت بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے شعر سفر کا آغاز سنجیدہ شاعری سے کیا تھا، لیکن بعد میں مزاح گوئی کی طرف مائل ہوئے اور یہی کلام ان کی وجہِ شہرت بنا اور دلاور فگار اردو کے اہم مزاح گو شعرا میں شمار کیے گئے۔
ان کا تعلق بدایوں سے تھا۔ وہ 8 جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے اور 1968ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں بڑا نام و مرتبہ پایا۔ دلاور فگار نے جلد ہی کراچی کے ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ شہر کے باذوق اور طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو سمجھنے والوں نے انھیں بہت پسند سراہا اور پذیرائی دی۔
اردو کے اس مزاح گو شاعر کے مجموعہ ہائے کلام انگلیاں فگار اپنی، ستم ظریفیاں، آداب عرض، شامتِ اعمال، مطلع عرض ہے، خدا جھوٹ نہ بلوائے اور کہا سنا معاف کے نام سے شایع ہوئے۔ دلاور فگار نے امریکی جمی کارٹر کی ایک تصنیف کا اردو ترجمہ بھی خوب تَر کہاں کے نام سے کیا تھا۔
حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی ان کے نام کیا تھا۔ ان کے کئی مزاحیہ قطعات اور اشعار مشہور ہوئے اور اکثر تحریر و تقریر میں اپنے دل کی بات کہنے اور مدعا بیان کرنے کے لیے ان کے کلام کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کا وہ مشہور قطعہ نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے ہمارے سماج میں جرم کے پھلنے پھولنے اور مجرم کے آزاد گھومنے کا سبب بیان کیا ہے۔
حاکمِ رشوت ستاں، فکرِ گرفتاری نہ کر
کر رہائی کی کوئی آسان صورت چھوٹ جا
میں بتائوں تجھ کو، تدبیرِ رہائی مجھ سے پوچھ لے
لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا
انھوں نے اپنی غزلوں اور نظموں میں زندگی کے بہت سے موضوعات اور انسانی کیفیات کو طنزیہ و مزاحیہ انداز میں پیش کیا۔ ان کا اسلوب اور موضوع کی تہ داری انھیں جدید دور کے مزاح گو شعرا میں منفرد اور ممتاز بناتا ہے اور ہمیں تبسم و لطافت کے ساتھ سماج کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔
اردو زبان سے متعلق ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
نہ اردو ہے زباں میری، نہ انگلش ہے زباں میری
زبانِ مادری کچھ بھی نہیں، گونگی ہے ماں میری