تازہ ترین

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد کا یومِ وفات

آج شمسُ العلما مولوی محمد حسین آزاد دہلوی کا یومِ وفات ہے۔ آزاد اردو زبان کے نام ور انشا پرداز، نقّاد، شاعر، مؤرخ اور اخبار نویس تھے۔ ان کی کتاب آبِ حیات کلاسیکی دور کے ادب اور شخصیات کا منفرد تذکرہ اور تنقید ہے جس کا خوب شہرہ ہوا۔ اسی طرح نیرنگِ خیال بھی آزاد کی ایک قابلِ ذکر تصنیف ہے۔

دہلی، آزاد کا وطن تھا جہاں انھوں‌ نے 1830ء میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اردو کے پہلے اخبار نویس تسلیم کیے جاتے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف اور آزادی کے حق میں بڑا کام کیا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران انھیں‌‌ گولی مار دی گئی۔ والد کی موت آزاد کو مشکلات پیش آئیں‌ اور وہ ہجرت کے بعد لاہور چلے آئے تھے۔

محمد حسین آزاد نے دہلی کالج سے تعلیم حاصل کی اور شاعری میں استاد ابراہیم ذوق کے شاگرد ہوئے۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد لاہور پہنچنے والے آزاد نے محکمہ تعلیم میں ملازمت حاصل کرلی۔ 1869ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور اور 1984ء میں اورینٹل کالج لاہور سے وابستہ ہوئے۔ 1887ء میں انھیں سرکار نے شمسُ العلما کا خطاب عطا کیا۔

آزاد نے اردو ادب میں‌ جدید تذکرہ نگاری کے ساتھ مختلف اصناف میں‌ اسلوب اور جدید طرزِ بیان کو متعارف کروایا۔ انھوں نے لاہور میں جدید شاعری کی تحریک کی شمع بھی روشن کی اور شعرا کو نظم کی طرف مائل کیا۔ آزاد کو جہاں ان کی ادبی خدمات کے سبب بہت پذیرائی ملی، وہیں‌ بعد میں آنے والوں نے ان کی تنقید اور تذکرہ نگاری کی خامیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ تاہم آزاد نے کئی اہم اور قابل ذکر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔

ان کی ادبی خدمات اور مقام و مرتبے کے بارے میں رام بابو سکسینہ نے لکھا ہے ”اردو نثر نگاروں میں آزاد کی ایک بہت دقیع اور بہت نمایاں ہستی ہے، بحیثیت بانیِ تحریکِ جدید ہونے کے، بحیثیت جدید طرز کے شاعر کے، بحیثیت ایک فارسی اسکالر کے جو قدیم رنگ کے ساتھ جدید رنگ کے بھی بڑے ماہر تھے۔ بحیثیت ایک ماہرِ تعلیم کے، بحیثیت ایک اعلٰی مضمون نگار، ناقد و مشہور پروفیسر اور مصنف کے اور حامیِ اردو و زبردست مقرر کے آزاد اپنے زمانے میں عدیم المثال تھے۔“

زندگی کی مشکلات کے ساتھ انھیں کئی صدمات کا سامنا بھی کرنا پڑا جس میں ان کی بیٹی کی موت کا المیّہ بھی شامل تھا اور اس کے بعد ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہ رہا۔ یہ حالت وفات تک برقرار رہی۔

آزاد نے 22 جنوری 1910ء کو وفات پائی۔ انھیں‌ لاہور میں کربلا گامے شاہ کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔

محمد حسین آزاد کی تصانیف میں سخن دانِ فارس، دربارِ اکبری، سیرِ ایران، جامع القواعد، نگارستان فارس، قصصِ ہند اور نگارستان شامل ہیں۔

Comments

- Advertisement -