یوں تو سفر کرنے والے ہر شخص کو اپنی منزل معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج کل کی مصروف زندگی کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ وقت نکال کر انجان منزلوں کی طرف سفر شروع کردے، تاہم کرونا وائرس نے کافی کچھ بدل دیا ہے۔
حال ہی میں ایک ایسی اسکیم متعارف کروائی گئی ہے جس میں مسافر سفر کے لیے تیار، جہاز پر آ کر بیٹھ جاتے ہیں لیکن انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی منزل کیا ہے۔
یہ اسکیم آسٹریلوی ایئر لائن کانٹس نے شروع کی ہے جس میں سفر کرنے والے کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ جہاز کہاں جا رہا ہے، وہ بس فلائٹ کا ٹکٹ خرید کر بیٹھ جاتے ہیں۔
سنہ 1990 کی دہائی میں یہ اسکیم کافی مقبول تھی اور اس کو دوبارہ شروع کرنے کا مقصد سیاحت کو فروغ دینا ہے۔
ایسی صورت میں مشکل یہ ہوسکتی ہے کہ جس جگہ جانا ہے وہاں کا ویزا مسافروں کے پاس نہ ہو تو کیا کیا جائے گا؟ تاہم ایئر لائن نے اس بے یقینی کی صورتحال کا بھی آسان حل نکالا ہے۔
اس سفر کے لیے اندرون ملک ہی کسی شہر کا رخ کیا جاتا ہے۔
یہ پروازیں کانٹس کے تین میں سے ایک بوئنگ 737 طیارے پر برسبین، میلبورن، یا سڈنی سے اڑیں گی۔ اس پرواز کا اکانومی کلاس کرایہ 577 ڈالرز (90 ہزار سے زائد پاکستانی روپے) جبکہ بزنس کلاس کرایہ 12 سو 33 ڈالرز (1 لاکھ 93 ہزار سے زائد پاکستانی روپے) ہوگا۔
اس پرواز کے اختتام پر ایئر لائن کی جانب سے مزید سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں، جیسے مشروبات، پرتعیش کھانے، یا کسی جزیرے پر غوطہ خوری تاکہ اس پرواز پر آنے والوں کا دن ضائع نہ جائے اور وہ اس سے خوب لطف اندوز ہوں۔
اس سے قبل بھی اسی ایئر لائن نے اسی نوعیت کی پروازیں چلائی تھیں جس میں مسافروں کو ایک جگہ سے جہاز پر لے جایا جاتا تھا اور پھر پرواز کے دوران زبردست نظارے کروا کر اسی مقام پر واپس اتار دیا جاتا تھا۔
اب حالیہ دنوں میں ایسی دلچسپ اسکیمیں متعارف کروانے کا رجحان پورے مشرقی ایشیائی ایئر لائنوں میں نظر آرہا ہے کیونکہ یہ صنعت مشکل میں ہے۔
ایئر لائنز کو امید ہے کہ یہ اسکیم مقبولیت حاصل کرے گی کیونکہ کرونا وائرس وبا کی وجہ سے ایک طرف تو سیاحت کا رجحان کم ہوگیا اور اکثر ممالک کی سرحدیں بند ہیں، تو دوسری جانب لاک ڈاؤن کے باعث لوگ بھی بیزاری اور بوریت کا شکار ہیں۔