تازہ ترین

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

ڈپریشن کے بارے میں وہ غلط فہمیاں جن کی حقیقت جاننا ضروری ہے

پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور ذہنی امراض کی سب سے بڑی قسم ڈپریشن ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 20 میں سے 1 شخص شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہے۔

دنیا بھر میں 26 کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، یعنی دنیا کی 5 فیصد آبادی ڈپریشن کے زیر اثر ہے اور اس کے باعث نارمل زندگی گزارنے سے قاصر ہے۔ ڈپریشن کے علاوہ دیگر ذہنی امراض جیسے اینگزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر، شیزو فرینیا یا فوبیاز کا شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

دنیا کی ایک بڑی آبادی کے ذہنی امراض سے متاثر ہونے کے باوجود اس حوالے سے نہایت غیر محتاط، غیر حساس اور غیر ذمہ دارانہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ دماغی صحت کے حوالے سے معاشرے کا رویہ بذات خود ایک بیماری ہے جو کسی بھی دماغی بیماری سے زیادہ خطرناک ہے۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار افراد کو پاگل یا نفسیاتی کہنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی جاتی اور ان کا ایسے مضحکہ اڑایا جاتا ہے کہ لوگوں سے کٹ جانا، تنہائی اختیار کرلینا یا پھر خودکشی کرلینا ہی انہیں راہ نجات دکھائی دیتا ہے۔

ذہنی امراض کے حوالے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بے حد غلط تصورات اور غلط فہمیاں موجود ہیں جنہیں دور کرنا بے حد ضروری ہے، آج یہاں پر ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں کے بارے میں بات کی جارہی ہے۔

غلط فہمی: ڈپریشن کو کسی علاج کی ضرورت نہیں

عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ ڈپریشن کے لیے کسی علاج یا دوا کی ضرورت نہیں، یہ خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔

حقیقت

اگر ہمیں بخار ہو، نزلہ زکام ہو، کیا کوئی اور تکلیف ہو تو ہم ڈاکٹر کے پاس جا کر دوا لیتے ہیں، تو پھر ڈپریشن کی دوا لینے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے؟ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر ڈپریشن کا صحیح وقت پر علاج نہ کیا جائے تو یہ آگے چل کر سنگین صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔

غلط فہمی: ماہر نفسیات کے پاس مت جاؤ، دنیا کیا کہے گی!

دنیا کیا کہے گی، یہ وہ خیال ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی زندگی کو بدتر بنا دیتا ہے۔ ذہنی امراض کے بارے میں قائم غلط تصورات کے باعث اسے شرمناک سمجھا جاتا ہے اور ماہر نفسیات کے پاس جانا گویا کلنک کا ٹیکہ، جس کے بعد ماہر نفسیات کے پاس جانے والے معاشرے کی نظر میں سرٹیفائڈ نفسیاتی ہوجاتے ہیں۔

حقیقت

اگر ہم دل کی تکلیف کا شکار ہوں، تو ہم ہارٹ اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔ ناک، کان، یا گلے کی تکلیف کے لیے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جایا جاتا ہے، کینسر کے علاج کے لیے کینسر اسپیشلسٹ سے رجوع کیا جاتا ہے جسے اونکولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ تو پھر دماغی امراض کے علاج کے لیے ماہر نفسیات یا دماغی امراض سے ہی رجوع کیا جانا چاہیئے جو مرض کی درست تشخیص کر کے اسے ٹریٹ کرسکے۔

غلط فہمی: ہر ذہنی و نفسیاتی مریض کو پاگل خانے جانا چاہیئے

یہ ہمارے معاشرے میں پایا جانے والا وہ بدصورت رویہ ہے جو ذہنی امراض کا شکار افراد کی بیماری کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

ذہنی طور پر خطرناک حد تک بیمار افراد کے علاوہ بھی جب کسی شخص کا ڈپریشن حد سے زیادہ بڑھ جائے اور اس کیفیت میں وہ خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے تب بھی یہی خیال کیا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو اب پاگل خانے میں داخل کروا دینا چاہیئے۔

حقیقت

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر ذہنی مریض کی جگہ پاگل خانہ نہیں ہے، یہ افراد بالکل نارمل ہوتے ہیں اور ان کا علاج ایسے ہی ہوسکتا ہے جیسے دل کا مریض اپنا علاج بھی کرواتا رہے اور اس کے ساتھ ساتھ زندگی کی تمام سرگرمیوں و مصروفیات میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لے۔

غلط فہمی: اینٹی ڈپریسنٹ دوائیں اپنی لت میں مبتلا کردیتی ہیں

یہ غلط فہمی بھی بہت سے لوگوں کو ماہر نفسیات کے پاس جانے سے روک دیتی ہے، اینٹی ڈپریسنٹ دواؤں کے بارے میں غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ اپنی لت میں یا کسی قسم کے نشے میں مبتلا کردیتی ہیں اور ان کا استعمال ساری زندگی کرنا پڑ سکتا ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے یہ دوائیں لینے والے افراد سارا دن غنودگی کی کیفیت میں ہوتے ہیں۔

حقیقت

ماہرین کے مطابق ڈپریشن کے دوران ہمارے جسم میں سکون، خوشی اور اطمینان کی کیفیت پیدا کرنے والے ہارمون جیسے سیروٹونین کی کمی پیدا ہوجاتی ہے، یہ اینٹی ڈپریسنٹ اس کمی کو پورا کرتی ہیں۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم جسم میں کیلشیئم کی کمی پورا کرنے کے لیے کیلشیئم کی گولیاں کھاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی بھی ہمارے جسم اور دماغ کو بری طرح ڈسٹرب کرتی ہے اور ذہنی تناؤ میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا ڈپریشن کے شکار افراد کے لیے سب سے اہم نیند کا پورا ہونا ہے۔

ڈپریشن کا شکار افراد کے اعصاب ریلیکس حالت میں نہیں ہوتے جبکہ وہ گہری اور پرسکون نیند لینے سے بھی قاصر رہتے ہیں لہٰذا یہ دوائیں ڈپریشن کا شکار شخص کے اعصاب کو ریلیکس کرتی ہیں جس سے اس کی نیند میں بہتری واقع ہوتی ہے۔ یہ مریض کے لیے نہایت ضروری ہے، طویل، پرسکون اور گہری نیند لینے کے ساتھ ڈپریشن میں کمی ہوتی جاتی ہے یوں اس شخص کی حالت میں بہتری آتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق شدید ڈپریشن کے مریض کو وہ ابتدا میں غشی آور ادویات ضرور استعمال کرواتے ہیں تاہم جیسے جیسے مریض کی نیند کا قدرتی لیول بحال ہونے لگتا ہے وہ ان دواؤں کی مقدار کم کرتے جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ ان دواؤں کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے۔

غلط فہمی: غذا کا ڈپریشن سے کوئی تعلق نہیں

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ غذا صرف ہمارے جسم پر اثر انداز ہوتی ہے، اور دماغ پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں کرتی۔

حقیقت

ہم جو کھاتے ہیں اس کا اثر صرف ہمارے جسم پر ہی نہیں بلکہ دماغ، نفسیات اور موڈ پر بھی پڑتا ہے۔ جس طرح جنک فوڈ ہمارے جسم کو فربہ کر کے ہمیں بلڈ پریشر یا دل کا مریض بنا سکتے ہیں اسی طرح یہ دماغ کو بھی ڈسٹرب کرتے ہیں۔

سائنس ڈیلی میں چھپنے والی ایک تحقیق کے مطابق جنک فوڈ کھانے کے عادی افراد میں ڈپریشن کا شکار ہونے کا خطرہ دیگر غذائیں کھانے والے افراد کی نسبت 51 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

جنک فوڈ اور غیر متوازن غذائیں ہمارے موڈ پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمیں غصہ، چڑچڑاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

اس کے برعکس پھل اور سبزیاں کھانے کے عادی افراد ڈپریشن کا کم شکار ہوتے ہیں، آسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پھل اور سبزیاں نہ صرف دماغی صحت کو بہتر بناتی ہیں اور دماغی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہیں بلکہ یہ کسی انسان کو خوش باش بھی رکھتے ہیں۔

غلط فہمی: ذہنی امراض کا شکار افراد سے دور رہا جائے

جب ہمیں اپنے ارد گرد کسی شخص کے بارے میں علم ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن یا کسی اور ذہنی مرض کا شکار ہے تو ہم اس سے دور بھاگتے ہیں اور اس سے بات کرنے سے کتراتے ہیں، ہمیں یہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ اس شخص کے لیے بھی مناسب محسوس ہوتا ہے کہ اسے اکیلا چھوڑ دیا جائے۔

حقیقت

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن یا دیگر ذہنی امراض کا شکار افراد کو سب سے زیادہ ضرورت ان کے اپنوں اور دوستوں کی ہوتی ہے، ایسے افراد کا سب سے بڑا علاج اور سب سے بڑی مدد ان کی بات سننا ہے تاکہ ان کے دل کا غبار کم ہوسکے۔

ایسے شخص کو اکیلا چھوڑنا اس کے مرض کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے، دوستوں اور اہل خانہ کی سپورٹ اور ان کے ساتھ ہونے کا احساس مریض کو بتدریج نارمل زندگی کی طرف لے آتا ہے اور وہ اپنے ڈپریشن سے چھٹکارہ پا لیتا ہے۔


اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

عالمی ادارہ صحت

عالمی ادارہ صحت / پاکستان

کتابچے برائے ذہنی امراض: کراچی نفسیاتی اسپتال

Comments

- Advertisement -