گزشتہ ایک صدی سے دنیا میں استعمال ہونے والی جادوئی دوا اسپرین جسے کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مفید قرار دیا گیا تھا لیکن اب محققین کا کہنا ہے کہ اس دوا سے مریضوں کی اموات روکنے میں مدد نہیں ملتی۔
برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ دریافت کیا گیا ہے سستی اور ہر جگہ آسانی سے دستیاب دوا اسپرین سے کوویڈ19 کے نتیجے میں اسپتال میں داخل ہونے والے افراد کی حالت بہتر نہیں ہوتی۔
نومبر 2020 میں برطانیہ میں ٹرائل کا آغاز ہوا تھا جس کا مقصد یہ جانا تھا کہ اسپرین کووڈ کے شکار افراد میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی یا نہیں۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں بلڈ کلاٹس کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور اسپرین وہ دوا ہے جو خون پتلا کرنے میں مددگار ہے اور اس سے کلاٹس کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔
اب اس کے نتائج سامنے آئے ہیں جس میں دریاافت کیا گیا کہ اسپرین کے استعمال سے کووڈ 19 کے مریضوں کی اموات روکنے میں مدد نہیں ملتی۔ ریکوری نامی اس ٹرائل میں متعدد ادویات کو اسپتال میں زیرعلاج مریضوں کے علاج کے طور پر آزمایا جارہا ہے۔
ٹرائل میں اسپرین پر تحقیق کے دوران لگ بھگ 15 ہزار مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے نصف کو روزانہ 150 ملی گرام اسپرین استعمال کرائی گئی جبکہ دیگر کی معمول کی نگہداشت کی گئی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اسپرین کے علاج سے موت کا خطرہ کم نہیں ہوتا اور ہسپتال میں علاج کے 28 دن بعد دونوں گروپس میں اموات کی شرح 17 فیصد تھی۔
محققین نے بتایا کہ اگرچہ اسپرین سے مریضوں کے ڈسچارج ہونے کا امکان تھوڑا بڑھ جاتا ہے مگر یہ کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے اس کے استعمال کو درست ثابت نہیں کرتا۔ تحقیقی ٹیم کے سربراہان میں شامل پروفیسر مارٹن لنڈرے نے بتایا کہ نتائج مایوس کن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا ٹھوس عندیہ ملا ہے کہ بلڈ کلاٹس کووڈ 19 کے سنگین حد تک بیمار ہونے والے افراد کے پھیپھڑوں کے افعال کو متاثر کرنے کے ساتھ ان کی موت کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپرین سستی اور آسانی سے دستیاب دوا ہے جو بلڈ کلاٹس کا خطرہ کم کرتی ہے تو نتائج مایوس کن ہیں کیونکہ اس سے کووڈ کے مریضوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا، مگر یہی وجہ ہے جو ایک بڑے کنٹرول ٹرائل کی اہمیت ظاہر کرتا ہے، تاکہ تعین کیا جاسکے کہ کونسا علاج کام کرتا ہے اور کونسا نہیں۔
اس ریکوری ٹرائل کے دوران کووڈ سے زندگی بچانے کے لیے ایک دوا ڈیکسامیتھاسون کو تلاش کیا گیا تھا جو قریب المرگ افراد کی زندگیوں کو بچانے میں مددگار قرار دی گئی۔
اسپرین پر ہونے والی تحقیق کے نتائج کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ ان کو پری پرنٹ سرور میڈ آرکسیو پر جاری کیا گیا۔