تازہ ترین

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

’جس دن بانی پی ٹی آئی نے کہہ دیا ہم حکومت گرادیں گے‘

اسلام آباد: وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور...

5 لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کا آرڈر جاری

ایف بی آر کی جانب سے 5 لاکھ 6...

اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر موصول

کراچی: اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف سے 1.1...

سابق وزیراعظم شاہد خاقان کے سر پر لٹکی نیب کی تلوار ہٹ گئی

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے سر پر لٹکی...

دل دھڑکنے کا سبب کووڈ بھی ہوسکتا ہے

کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد بعض مریضوں کو طویل عرصے تک اس کی علامات کا سامنا ہوسکتا ہے جسے لانگ کووڈ کہا جاتا ہے، اب حال ہی میں اس کی ایک اور علامت سامنے آئی ہے۔

بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں امریکا میں ہونے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ لانگ کووڈ کے مریضوں کو دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی جیسی علامت کا بھی طویل المعیاد بنیادوں پر سامنا ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں 875 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی جانب سے نظام تنفس کی بیماری کی علامات کو رپورٹ کیا گیا تھا۔ ان میں سے 234 میں بعد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی اور محققین نے ویئر ایبل ڈیوائسز کی مدد سے ان کی بیماری کا مشاہدہ کیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کچھ مریضوں کی دھڑکن کی رفتار اور نیند کے رجحان کو معمول پر آنے میں 4 ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔

ویئر ایبل ڈیوائسز سے ان کے روزانہ قدموں سے توانائی کی سطح کی جانچ پڑتال سے دریافت ہوا کہ بیماری کی علامات کے آغاز کے بعد کم از کم 30 دن لگے جب ان کی جسمانی توانائی کی سطح معمول پر آسکی۔

مجموعی طور پر کووڈ 19 کے شکار افراد میں دھڑکن کی رفتار کو معمول پر آنے میں اوسطاً 79 دن اور توانائی کی سطح بحال ہونے میں 32 دن لگے۔ دھڑکن کی بے ترتیبی کا مسئلہ ان افراد میں زیادہ عام تھا جن کو کووڈ کے دوران کھانسی، جسمانی درد اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہوا۔

ماہرین نے کہا کہ تنائج سے معلوم ہوتا ہے کہ دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھنے کی وجہ جاننا یہ تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے کہ کس کو کووڈ سے منسلک ورم یا مدافعتی نظام تھم جانے کا سامنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سنسر ڈیٹا اس وائرس سے لوگوں کے جسم پر مرتب ہونے والے اثرات کو جاننے کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افراد دل کی کسی قسم کی علامات کو نوٹس نہیں کرتے تاہم دھڑکن کی رفتار کا غیر اطمینان دہ احساس کچھ افراد کو ہوتا ہے۔

کچھ افراد کو لگتا ہے کہ محض ٹوائلٹ تک جانے سے ہی ان کا دل تیزی سے بھاگنے لگا ہے۔

ماہرین کے مطابق نتائج سے معلوم ہوا کہ بیشتر افراد چند ہفتوں میں کووڈ کو شکست دے دیتے ہیں اور کسی قسم کے اثرات کا سامنا نہیں ہوتا، مگر جب دھڑکن کی رفتار بڑھتی ہے تو بیشتر افراد کو عدم اطمینان کا احساس ہوتا ہے، مگر اس سے ہٹ کر فی الحال کسی قسم کے سنگین نتائج سامنے نہیں آئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی مریض کو ان علامات کا سامنا 3 ماہ سے زیادہ ہوتا ہے یا جسمانی سرگرمیاں محدود ہوتی ہیں تو پھر خدشہ ہوسکتا ہے کہ ان کو کسی بڑے مسئلے کا سامنا ہے۔

Comments

- Advertisement -