اشتہار

یومِ‌ وفات: شیفتہ کا تذکرہ جن کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں

اشتہار

حیرت انگیز

اردو زبان کے نام وَر شاعر نواب مصطفیٰ خان شیفتہ نے 1869ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اردو شاعری کے کلاسیکی دور اس کے بعد آنے والے شعرا میں شیفتہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔

نواب مصطفٰی خان شیفتہ جہانگیر آباد کے ایک جاگیردار اور رئیس تھے جنھوں‌ نے اردو اور فارسی زبانوں میں شاعری کے ساتھ نقد و نظر میں بھی حصّہ ڈالا۔

1809ء میں پیدا ہونے والے شیفتہ، مرزا غالب کے گہرے دوست تھے اور انھوں نے ہی الطاف حسین حالی کو غالب سے متعارف کروایا تھا۔

- Advertisement -

شیفتہ کے شعری مجموعوں‌ کے علاوہ ان کی کتاب گلشنِ بے خار کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے جو دراصل کلاسیکی ادب کے کئی نام وروں کا تذکرہ اور کلام پر فارسی میں تنقید ہے۔

1839ء میں شیفتہ نے حج کے لیے بحری جہاز کا سفر کیا تھا اور اس دوران جو واقعات پیش آئے، اور حج و زیارت کے موقع پر انھیں جو کچھ دیکھنے کا موقع ملا، اسے اپنے سفرنامے میں‌ محفوظ کیا ہے۔

شیفتہ کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ
اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

بے عذر وہ کر لیتے ہیں وعدہ یہ سمجھ کر
یہ اہلِ مروّت ہیں تقاضا نہ کریں گے

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں